Letter To Editor

آمنے سامنے

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

٭شمارہ ۱۱۴۷ کا سرورق بہت خوب صورت تھا۔ ’دستک‘ میں مدیر چاچو پانی کو ذخیرہ کرنے کا طریقہ بتایا اچھا لگا۔ ’دوسروں کو نہ دیکھو‘ اچھی تحریر تھی اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی نعمتوں کا شکر کرنے کا توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ’کہو مہتاب سے ہمت نہ ہارے‘ تحریر میں چاچو اور عبداللہ بھائی دوبارہ فلسطین کا دکھ بانٹے آئے۔ اللہ تعالیٰ فلسطین کو مکمل آزادی عطا فرمائے۔ آمین۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ بھی اچھا سلسلہ چل رہا ہے۔ ’آمنے سامنے‘ کی محفل میں قارئین کم ہوگئے ہیں اور حیا احمد دو کرسیوں پر موجود تھیں باقی رسالہ بھی ماشاء اللہ اچھا تھا۔ (محمد اسعد بن عبدالحفیظ۔ بہاول پور)

ج:قارئین تو بہت ہیں، اس بار کا آمنے سامنے ہی دیکھ لیجیے!

٭شمارہ ۱۱۴۲ کا سرورق بہت اچھا تھا۔ ’قرآن و حدیث‘ کے بعد آپ کی دستک پڑھی۔ ’انمول غلامی‘ بہت اچھی تھی۔ ’شیشے کے قیدی‘ کی پہلی قسط پڑھ کے پتا چل گیا کہ یہ موبائل ہی ہوگا۔ اللہ بچائے ایسی لعنت سے۔ ’مسکراہٹ کے پھول‘ پڑھ کے بہت ہنسی آئی۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ مجھے بہت پسند ہے اگلی قسط کا انتظار رہتا ہے۔ ’سیاہ کشمش کا قہوہ‘ کہانی پڑھی۔ جھوٹ کی سزا ضرور ملتی ہے۔ ’میر حجاز‘ کی ہر قسط لاجواب ہوتی ہے۔ بینا صدیقی کافی عرصے بعد نظر آئیں۔ ڈاکٹر سارہ الیاس کافی عرصے سے نظر نہیں آرہیں۔ اثر جون پوری صاحب کی نظمیں اچھی ہوتی ہیں۔ آج مجھے بھی بہت پسند ہیں پر شاعری نہیں آتی۔ آمنے سامنے میں چھ خطوط جگمگا رہے تھے۔ مگر یہ جگمگ مجھے اپنے بغیر ادھوری لگی۔ شمارہ ۱۱۴۳ کی دستک میں آپ نے بہت کچھ سمجھایا۔ فوزیہ خلیل کی کہانی ’گھی کے پراٹھے‘ بہت دکھی کہانی تھی۔ ’کراچی کی لغت‘ نے بہت ہنسایا۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ کی قسط کمال تھی۔ ’جواہرات سے قیمتی‘ واقعی کمال کے تھے۔ ’میر حجاز‘ کی ہر قسط بہت اچھی ہوتی ہے۔ ’شیشے کے قیدی‘ اچھی کاوش ہے۔ ’لے سانس بھی آہستہ‘ پروفیسر محمد اسلم بیگ صاحب اچھی تحریر لے کر آئے۔ ہمیشہ کی طرح ’ذہین بچوں کی حاضر جوابیاں‘ بچے تو ماشاء اللہ بہت ذہین ہوتے ہیں۔ آمنے سامنے میں خوب رونق تھی۔ وجیہہ خاتون کا خط کمال کا تھا۔ (فریحہ مجید۔ راجن پور)

٭شمارہ ۱۱۴۳ کی سرورق کہانی پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں۔ کہانی نے موجودہ معاشرہ اور حالاتِ حاضرہ کی سو فیصد عکاسی بیان کی اور درست بیان کی۔ ’ذہین بچوں کی حاضر جوابیاں‘ حیران کن تھیں اور آپ کی ’دستک‘ با اثر رہی۔ ’لے سانس بھی آہستہ‘ حرمِ مدینہ کے احترام اور اس کی تقدیس کو اجاگر کر رہی تھی۔ ’کراچی کی لغت‘ عجیب سی لگی۔ نظم ’آم ہی آم ہے‘ پڑھ کر دل نے پکارا کہ اے آم بس تیرا نام ہی نام ہے۔ ’شیشے کے قیدی‘ بھی اچھی رہی بلکہ بہترین رہی۔ خطوط میں پہلا خط پیارا لگا۔ پس پشت ’مسکراہٹ کے پھول‘ کی خوشبو بہت بھائی۔ شمارہ ۱۱۴۴ کا سرورق پیلا، سورج کی کرن سے چمکتا ہوا نظر آیا۔ ماشاء اللہ۔ ’مومن کی اذان‘ تحریر نے دل کو تڑپادیا۔ آنکھیں بے قابو ہوکر آنسو بہانے لگیں۔ اواب شاکر نے ٹنکو کی اچھی شرارتیں بیان کی۔ ’جامن‘ موسمی نطم تھی۔ ’پاکستان کا پرچم‘ اچھی اور معلوماتی تھی۔ ’بچے ہمارے عہد کے‘ کھلکھلاتی تحریر تھی۔ ’مسکراہٹ کے پھول‘ نمایاں تھے۔ ’بے صبری قوم‘ تحریر نے ہماری قوم کے درست حالات پر عکس ڈالا۔ ’اچھی خبر‘ بھی اچھی تھی۔ ’آمنے سامنے‘ میں خط اپنا پسند آیا اور جواب فہد اللہ کے پہلے پہلے خط کا۔ یہ ناممکن ہے کہ ہمیں کوئی خط یا جواب پسند نہ آئے۔(مولانا محمد اشرف۔ حاصل پور)

٭وقت کی پکار ایک سبق آموز کہانی تھی۔ الحمدللہ ہم بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ ’نو سو سال تک!‘ کہانی بھی بہت زبردست تھی۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ ناول بھی بہت اچھا جا رہا ہے۔ تمام کہانیاں بہت اچھی تھیں۔ امید ہے کہ آپ میرا خط ضرور شائع کریں گے۔ مجھے اپنے پہلے خط کا بے چینی سے انتظار ہے۔ (ام ایمن۔ علی پور، مظفر گڑھ)

٭سب سے پہلے ’قرآن حدیث‘ پڑھی۔ اس کے بعد ’دستک‘ پڑھی جس میں آپ شکوہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد ’قینچی کی طرح‘ تحریر اچھی لگی۔ ’تلاش محل‘نے ہنسنے پر مجبور کردیا اور ماں کی قدر کا پتا چلا۔ مدرسے پڑھنے سے پہلے ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ ’دو باتیں‘ پڑھ کر دل ٹھنڈا ہوگیا اور اشتیاق احمد صاحب کو ایصال ثواب کیا۔ ’میر حجاز‘ ہمیشہ کی طرح اب بھی آنکھیں نم کر گیا۔ ’شکست کھالے‘ محمد احمد بن عرفان الحق نے بہت پتے کی بات کی۔ کبیروالہ کا نام دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ ’آسان علم دین کورس‘ سے بہت فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ بہت ہی زبردست رہی۔ ’تو جو چاہے‘ حافظ عبدالرزاق خان نے مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہم ان کا بائیکاٹ تو کرسکتے ہیں۔ ’آمنے سامنے‘ میں اپنا خط نہ پاکر بھی افسوس نہ ہوا کیونکہ اس میں میری کلاس فیلو کا خط تھا۔ ’مسکراہٹ کے پھول‘ پر اقرأ فرید کا قبضہ تھا۔ جس نے مسکرانے پر مجبور کردیا۔ آخری صفحے پر کتابوں کے اشتہار دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا اور پر اکتفا کیا۔ (ماہ نور بنت محمد قاسم۔ ککڑہٹہ)

٭شمارہ ۱۱۳۶ ایک دن دیر سے سوموار کو ملا۔ سب سے پہلے ’قرآن و حدیث‘ کو پڑھا۔ ’دو باتیں‘سے اندازہ ہوگیا کہ اشتیاق احمد ختم نبوت کے سچے عاشق تھے۔ ’میر حجاز‘ ماشاء اللہ سے معلومات سے بھر پور جا رہا ہے۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ تو قسط در قسط معلوماتی ہوتا جا رہا ہے۔ اگلے صفحے پر اپنے پسندیدہ لکھاری حافظ عبدالرزاق خان کو براجمان پایا۔ زبردست تحریر خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔ اس کے بعد بچے من کے سچے کو دیکھ کر خوش ہوئے کہ یہ ہمارے مدرسے کی بچیوں کا مرسلہ تھا۔’مسکراہٹ کے پھول‘ ہمارے چہرے پر بھی پھول کھلا گئے۔ بس اپنے خطوط کے شائع ہونے کا انتظار ہے۔ (حفصہ صفدر، اقصیٰ صفدر۔ کوٹ اسلام)

٭شمارہ ۱۱۴۱ کا سرورق دیکھ کر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ’کیتلی کیوں بھاگی؟‘ جاوید بسام صاحب کی ہوگی پھر شمارے کا جائزہ لیا تو بے حد حیرت ہوئی وہ انہی کی تھی۔ پھر ترتیب سے ’القرآن وحدیث‘ کے بعد ’دستک‘ اور ’بچپن کا اثر‘ پڑھی۔’ہمت کا پہاڑ‘ کی یہ قسط بھی لاجواب تھی۔ حافظ عبدالرزاق چاچو کی کہانی ’دیر نہ کرنا‘ پڑھی نہایت سبق آموز تھی۔ ’میر حجاز‘ کی ہر قسط دل میں عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم جگاتی ہے۔ ’آمنے سامنے‘ کی محفل میں سب خطوط زبردست تھے۔ شمارہ ۱۱۴۴ شام کو رسالہ پڑھا ’القرآن وحدیث‘ کے بعد آپ کی ’دستک‘ پڑھی۔ ’یہ ہمارا منو نہیں‘ سبق آموز تھی۔ ’مومن کی اذان‘ شمارے کی بہترین کہانی تھی۔ ’میر حجاز‘ کی تعریف کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ ’جو پنگا کرو گے تو‘ نے بہت ہنسایا۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ کی یہ قسط مزاح سے بھر پور تھی۔ ماشاء اللہ اس بار میں آمنے سامنے میں چار نہیں آٹھ چاند لگے ہوئے تھے کیونکہ اس میرا میرا پہلا خط جو شائع ہوا تھا۔شمارہ ۱۱۴۵ میں مجھے یقین تھا کہ میرا دوسرا خط ضرور شائع ہوگا جب میں نے رسالے میں اپنا خط دیکھا وہ بھی پہلے نمبر پر مجھے بہت خوشی ہوئی آپ کا بہت بہت شکریہ! اب آتی ہوں تبصرے کی طرف القرآن و حدیث کے بعد آپ کی دستک پڑھی۔ ’عقل مند تاجر‘ پڑھی پڑھی سی لگی۔ ’مناسب الفاظ‘ پڑھ کر مناسب الفاظ بولنے کا عزم کیا۔ ’خود اپنے خلاف گواہی‘ مزاحیہ کہانی تھی۔ ڈاکٹر امین علی صوابی لومڑی کی چاپلوسی پر کہانی لے کر آئے بہت زبردست۔ ’میر حجاز‘ تو اس رسالے کی جان ہے۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ اچھا جا رہا ہے۔ ماسٹر اللہ بخش کے آخر میں جاری ہے دیکھ کر منہ بن گیا مگر اچھی کہانی تھی۔ (بریرہ بتول زہرہ بنت لطف اللہ رحمانی۔ راجن پور)

٭ بچوں کا اسلام کا پتا مجھے تب ملا جب میرے بڑے بھائی جامعہ دارالعلوم کراچی سے گھر آتے تھے تو اپنے ساتھ بہت سے رسالے لے کر آتے۔ ایک دن میں نے ایک رسالہ اٹھایا اور پڑھنے لگا تو پھر پڑھتا ہی چلا گیا اور یہ مجھے بہت زیادہ پسند آیا۔ اس کے بعد سے میں اس کا مستقل قاری بن گیا۔ مدیر چاچو آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ایکسپو سینٹر کراچی میں میرے بڑے بھائی کو اپنی کتاب ’کہانی اک سفر کی‘ اپنے آٹو گراف کے ساتھ ہدیہ کی۔ یہ کتاب ہمیںبہت ہی اچھی لگی۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ پڑھ کر ہمیں بھی مارشل آرٹ کا شوق ہو چلا ہے۔(محمد عبداللہ بن ولی الرحمن۔ اسلام آباد)