Kaddu Ka Halwa

حلوہ جلوہ

شکیل نیازی۔ میانوالی

’’سر! آج صبح سے اس دوزخ میں کچھ نہیں گیا۔‘‘ کانسٹیبل نذیر نے اپنی توند پر ہاتھ پھیر کر تھانیدار سے کہا۔

’’لیکن ہم نے ابھی 3 بجے ہی تو کھانا کھایا ہے۔‘‘ تھانیدار نے حیران ہو کر کہا۔
’’مگر سر! اب رات کے آٹھ بج چکے ہیں اور کیس کے آنے کا دور دور تک آثار
نہیں۔ یہ سڑک تو ہمیشہ سے یوں ہی ویران رہتی ہے کیوں نہ ہم ہوٹل کا چکر لگا
آئیں؟‘‘کانسٹیبل نے کہا۔

’’نہیں، نہیں میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔ ہم ہوٹل جائیں اور پیچھے سے کسی افسر نے رائونڈ لگالیا تو پورے دن کی محنت پر پانی پھر جائے گا۔‘‘ تھانیدار نے سر ہلا کر انکار کرتے ہوئے کہا۔

’’کچھ تو سوچیں سر! ایسے کیسے گزارا ہوگا؟‘‘

’’سوچ لیا۔‘‘ تھانیدار نے ایک دم سے کہا۔

’’کیا سوچ لیا سر!‘‘
’’ارے تیری بھوک مٹانے کا طریقہ۔‘‘ تھانیدار نے جھلا کر کہا۔

’’وہ کیسے سر!‘‘
’’سامنے دیکھ وہ جو موٹر سائیکل سوار آرہا ہے ناں… اس سے خرچا پانی لیتے ہیں۔‘‘ تھانیدار نے مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے کہا تو کانسٹیبل نے سر ہلا دیا۔

’’رک!‘‘ کانسٹیبل نے دھاڑ کے موٹر سائیکل سوار کو روکتے ہوئے کہا۔
’’جی سر! فرمائیے!‘‘ موٹر سائیکل سوار شریف صورت آدمی نے پریشان ہو کر کہا۔

’’فرمائیے کے بچے !نیچے اتر۔‘‘ کانسٹیبل نے دوبارہ دھاڑ کر کہا۔
بے چارا فوراً موٹر سائیکل سے اتر گیا۔

’’کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ کانسٹیبل نے تلاشی لیتے ہوئے پوچھا۔
’’بازار سے سر!‘‘ اس نے کانپتے ہوئے کہا۔

’’نام کیا ہے تمہارا؟‘‘ اس بار تھانیدار نے پوچھا۔
’’علی اصغر… نہیں میرا مطلب ہے اصغر علی۔‘‘

’’واہ کیا بات ہے! اپنا نام بھی ٹھیک سے یاد نہیں آرہا۔‘‘ تھانیدار نے اسے گھور کر کہا۔
’’اس کا قصور نہیں ہے سر! آپ کی صورت ہی کچھ ایسی ہے۔ اچھے اچھوں کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔‘‘ کانسٹیبل نے جلدی سے کہا تو تھانیدار نے اسے گھورا۔

’’سوری سر!‘‘ کانسٹیبل کو فوری احساس ہو گیا کہ وہ جوش میں کچھ زیادہ ہی بول گیا ہے۔
’’سر! اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ کانسٹیبل نے مایوسی سے کہا۔

’’تم اتنے پھنے خان ہو کر جیب میں ایک روپیہ تک نہیں رکھتے۔‘‘ تھانیدار نے حیرت سے کہا۔
’’سر! دراصل میں ایک مزدور ہوں، جو کماتا ہوں فوراً خرچ ہوجاتا ہے۔‘‘

’’اس شاپر میں کیا ہے؟‘‘ کانسٹیبل نے موٹر سائیکل پر لٹکے شاپر کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
’’کچھ بھی نہیں ہے سر! یہ سوہن حلوہ ہے۔ آج میرا بیٹا پاس ہوا ہے نا… تو اسی خوشی میں لے کر جارہا ہوں۔‘‘

’’ارے! تم تو ایک نمبر کے بے وقوف ہو۔ تم کہتے ہو اس میں کچھ بھی نہیں ہے اور ساتھ ہی کہتے ہو کہ اس میں حلوہ ہے۔ ذرا کھول کے دکھائو ناں ہم بھی تو دیکھیں کہ اس میں واقعی حلوہ ہے بھی کہ نہیں۔‘‘ تھانیدار نے شاطرانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
’’سر! میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے مطلب کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ ا س نے بے بسی سے کہا۔

’’یہ تو اسے دیکھ کر ہی فیصلہ کر پائیں گے کہ اس میں کچھ ہے بھی کہ نہیں۔ کھولو اسے۔‘‘ تھانیدر نے بات کے آخر میں غراتے ہوئے کہا۔
’’لیکن سر! اس کی پیکنگ خراب …‘‘

’’کھولتے ہو یا تمہیں پیک کرکے جیل بھیج دوں؟‘‘
’’کھولتا ہوں سر! کھولتا ہوں۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا اور گفٹ پیک کو پھاڑ کر ڈبے کو کھولا تو حلوے کی اشتہا انگیز خوشبو چاروں طرف پھیل گئی۔

’’ ارے واہ… اتنی قیمتی چیز چھپا کے لے جارہے تھے۔ ہم اسے اپنی کسٹڈی میں لے رہے ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب ؟میں سمجھا نہیں۔‘‘

’’صاحب کے کہنے کا مطلب ہے اسے یہاں چھوڑو اور تم جائو۔‘‘ کانسٹیبل نے کہا۔
’’لیکن سر! یہ میں اپنے بیٹے…‘‘

’’بس بس! آگے کچھ مت بولنا… کیا صرف تمہارا ہی بیٹا پاس ہوسکتا ہے ،ہمارا نہیں؟ یوں سمجھ لو میں نے اپنے بیٹے کے پاس ہونے کی خوشی میں یہ حلوہ رکھ لیا ہے، اب تم جاسکتے ہو۔‘‘ تھانیدار نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تو وہ صدمے سے بت بن کر رہ گیا۔
’’اب جاتے ہو یا لگائوں دو ہاتھ؟‘‘ کانسٹیبل نے تھانیدار کو خوش کرنے کے لیے منہ پھاڑ کر کہا تو اس نے بمشکل اپنے آنسوئوں کو گرنے سے روکا اور پھر موٹر سائیکل پر سوار ہو کر آہستہ آہستہ ان سے دور ہوتا گیا۔ اس کے جاتے ہی کانسٹیبل ہنسنے لگا ۔

’’سر! آپ ایک فرض شناس پولیس آفیسر ہی نہیں،بلکہ ایک کامیاب اداکار بھی ہیں۔ آپ نے کس مہارت سے کہا کہ میرا بیٹا بھی پاس ہوا ہے، حالاں کہ آپ نے تو ابھی تک شادی ہی نہیں کی۔‘‘ کانسٹیبل کی بات سن کر تھانیدار نے کندھے اور چوڑے کیے۔
’’اچھا! اب جلدی سے اسے ختم کریں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی ہم سے بھی زیادہ بھوکا افسر یہاں آجائے۔‘‘ تھانیدار نے کہا اور اس کے ساتھ ہی دونوں نے حلوہ کھانا شروع کر دیا۔

O
’’اٹھو!‘‘ کسی نے تھانیدار کے پائوں پہ ٹھوکر ماری تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
اس نے دیکھا کہ وہ زمین پہ لیٹا تھا اور اس کے ساتھ ہی کانسٹیبل نذیر زمین پر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔

’’واہ کیا ڈیوٹی دے رہے ہو!… تم یہاں نیند کے مزے لے رہے ہو اور کچھ فاصلے پہ ڈاکو ناکہ لگا کر ہر آتی جاتی گاڑی کو لوٹتے رہے۔ میں نے تمہیں بار بار وائرلیس پر پیغام بھیجا، لیکن تم ہوش میں ہوتے تو تمہیں علم ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں تم دونوں کو ڈیوٹی سے غفلت برتنے پر معطل کر رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر انسپکٹر صاحب چلے گئے۔ جبکہ تھانید ار کبھی سوتے ہوئے کانسٹیبل نذیر کو دیکھتا تو کبھی خالی حلوے کے ڈبے کو۔ یقینا حلوے میں بے ہوشی کی دوا ملی ہوئی تھی اور اس نوسرباز نے کمالِ چال بازی سے حلوہ انہیں دے دیا، تاکہ وہ اس علاقے میں آسانی سے وارادات کر سکیں۔