Promise

ہمت کا پہاڑ (33)

وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!

ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!
راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم
تحریر:رشید احمد منیب

میرے استاذ انعام اللہ خان کو اللہ رب العزت نے بڑی ہمت سے نوازا تھا۔ وہ خو د بھی اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہتے تھے۔ کیوکشن کراٹے ان کےمزاج کے مطابق تھا کیوں کہ مارشل آرٹ کے اس فن میں پورے جسم کی بھرپورقوت استعمال ہوتی ہے ۔ اس کے مقابلوں میں بھی پورے جسم پر ضرب کی اجازت دی جاتی ہے۔اس فن کو سیکھنے والے فرد کا پور ا بدن مضبوط ہوجاتا ہے اور وہ ہر قسم کی ضرب لگانے اور ضرب کو برداشت کرنے کی تربیت حاصل کرتاہے ۔ مارشل آرٹ کی دنیا میں اس وقت مکس مارشل آرٹ یعنی ایم ایم اے کی شہرت ہوچکی ہے۔پاکستان میں بھی ایم ایم اے کے اچھے کھلاڑی تیار ہو رہے ہیں لیکن ایم ایم اے کے اچھے کھلاڑیوں کو کسی خاص روایتی طرز میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے ورنہ ا ن کے لیے بڑےمقابلوں میں شرکت آسان نہیں ہوگی ۔چھ ،دہائیوں قبل مارشل آرٹ کی دیگر اقسام میں جسمانی پھرتی کے استعمال کے ذریعےاپنے دفاع کو ترجیح دی جاتی تھی اور قوت والی ضرب لگانے سے گریز کیا جاتا تھا۔ ضرب صرف باکسنگ میں تھی۔ ضرب سے زیادہ خود کو بچانے پر توجہ دی جاتی تھی۔ کیو کشن نے اس روایت کو تبدیل کردیا اور ضرب سہنے اور بھرپور ضرب لگانے کی طرز ڈالی ۔ سیہان انعام اللہ خان کو اپنے مزاج کی وجہ سے کیوکشن بہت پسندآیا تھا اس لیے انھوں نے اسی فن کو اختیار کرلیا اور پاکستان میں اس فن کی ترویج کا سہرا انہی کے سر رہا ۔ کیو کشن کے مقابلوں کے حوالے سے اب کچھ دل چسپ واقعات آپ انہی کی زبانی سنیے !

جاپان میں سوسائی ماسو اویاما سے کیوکشن کی بلیک بیلٹ حاصل کرنے کے بعد بھی میں نے مختلف ماسٹروں کے پاس جا کر سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ جاپان ہی میں جوڈو کے بہترین اساتذہ کے پاس گیا۔ برما جا کر بانڈو کے گرانڈ ماسٹر کے پاس کچھ وقت گزارا،اس کے بعد شوتوکان اور جوجسٹو کے اساتذہ کے پاس بھی گیا،لیکن یہ فنون میں سیلف ڈیفنس کی الگ کلاس میں سکھاتا ہوں،فائٹ کے لیے میں نے کیوکشن ہی کو پسند کیا کیوں کہ یہ میرے مزاج کے مطابق ہے۔ پاکستان واپس آکرمیں نے اس ارادے کو پختہ کیا کہ زندگی مارشل آرٹ کے لیے وقف ہےاور اب اس فن کو پاکستان میں پھیلانا ہے۔ اس وقت جسارت اخبار والوں نے مجھ سے پوچھاتھا کہ اب مستقبل کے لیے آپ کے کیا ارادے ہیں ؟ میں نے جواب دیا تھا کہ میں ا پنے نوجوانوں کو یہ فن سکھاؤں گا او ر جو کام میں نہیں کرسکو ں گا اسے میرا بیٹا پورا کرے گا۔ والد صاحب نے اپنے دو پلاٹ میرے کلب کے لیے وقف کردیے تھے۔ اس میں دو تین کمرے بنے ہوئے تھے اور باقی صحن تھا۔ یہ جگہ ہمارا کلب بن گئی اور پھر یہ کلب پاکستان کیوکشن ہیڈ کواٹر بن گیا جہاں سے پورے ملک میں مارشل آرٹ کا پیغام پھیلا ۔

کلب کے آغاز کے بعد میرے پرانے شاگرد بھی یونی ورسل کراٹے چھوڑ کر کیو کشن کا حصہ بن گئے ۔ میں نے بہت جلداپنی ٹیم تیا ر کرلی۔کلب میں شام کے وقت کلاسیں ہونے لگیں ۔میں صبح دوڑ لگاتا تھا اور شام کو کلاسیں کرتا تھا۔ درمیان کا وقت والد صاحب کے اسٹور پر گزرتا تھا۔ دوپہر کو کچھ دیر آرام کیا کرتا اور شام کو کلاسیں ہوتی تھیں۔ جب میں اسٹو رپر کام کرتا تھا تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ عالمی چیمپئن ہے یا بلیک بیلٹ ہے ۔ مارشل آرٹ کے ماہر کو دیکھنے میں عام انسان ہی لگنا چاہیے ۔ عام انسانوں کی طرح ہی پیش آنا چاہیے ۔ فن سیکھنے کامقصد انسانوں کی خدمت کرنا ہے ،ان پر حکومت کرنا نہیں ہے ۔ اچھے انسانوں کی قدرکرنا، دکھی لوگوں کے کام آنا، کمزوروں کا خیال رکھنا ہماری قوت کا امتحان ہوتا ہے۔ یہ طاقت ،قوت اور ہمت و برداشت اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے ۔ اس نعمت کی قدر یہی ہے کہ اس کے بندوں کے کام آیا جائے اور دکھی لوگوں کی مدد کی جائے ورنہ یہ نعمت ہاتھ سے نکل بھی سکتی ہے۔میں نے یہی سوچا تھا کہ پاکستان کے لوگوں کو مضبوط بنایاجا ئے ۔ ہمارے جوانوں میں ہمت ہوگی تو وہ اپنے قدموں پر خود کھڑے ہوں گے ۔علامہ اقبال کے کلام اور مارشل آرٹ نے میری زندگی پر بہت اثرات ڈالے ہیں ۔ مجھے اقبال کے کلام سے بڑی مدد ملتی ہے اور میں ان کے اشعار اپنے خاص شاگردوں کو سناتا رہتا ہوں۔

پاکستان میں کیو کشن کو تیزی سے پھیلانے کے لیے میں نے سوچا کہ پورے ملک کا ایک دورہ کرتا ہوں اور جہاں بھی کلب موجود ہیں ،وہاں جا کر مقابلہ کرتا ہوں۔ میں نے یہی کیا اورپورے ملک میں مختلف شہرو ں میں جا کر ماسٹروں کو مقابلے کی دعوت دی اور مقابلے کیے ۔ بہت سے ماسٹر وں نے میری دعوت قبول کرلی اور کیوکشن میں داخل ہوگئے۔ اس طرح پاکستان میں کیوکشن مقبول ہوا۔

کیوکشن کو مقبول کرنے کےلیے کیو کشن ہیڈ کواٹر کی ٹیم نے مختلف شہروں میں اپنے پروگرام بھی کیے ۔ میرے شاگردوں میں سید شکیل ،طارق صدیقی،ماسٹر الطاف، غلام اللہ انصاری اور بہت سے لڑکے تھے جو کیو کشن فائٹنگ اور بریکنگ وغیرہ کی صلاحیت پیش کرتے تھے ۔ برف کی سلیں توڑنا، ہتھیلی سے ناریل اور پہاڑی پتھر توڑنا، لکڑی کے تختے توڑنا، پیٹ پر بھاری پتھر رکھ کر بڑے ہتھوڑے سے توڑنا، پیٹ پر سے جیب گزارنا،اس قسم کے بہت سے کام ہم ان مظاہروں میں پیش کرتے تھے جس کی وجہ سے بہت سارے نوجوان ہمارے ممبر بنے ۔میں ایک کام یہ بھی کرتا تھا کہ اپنے اچھے لڑکوں کو دوسرے کلبوں میں بھیجتا تھا تاکہ وہ وہاں جا کر اپنی فائٹنگ دکھائیں اور ہمیں اچھے فائٹر ملیں۔ جب پاکستان میں کیوکشن مقبول ہونے لگا تو بہت سے لوگوں نے اعتراضا ت بھی کیے ۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہو تا کہ آپ تو مارتے ہیں۔ میں اس پر حیران ہوتا تھا کہ مارشل آرٹ جب خالی ہاتھ لڑائی کا نام ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنا دفاع کریں گے اور دوسرے کو ماریں گے۔ بہترین دفاع خود حملہ کرنا ہے ۔ جولڑتا ہے وہ حملہ بھی کرتا ہے ۔اب ایسے حملے کا کیا فائدہ کہ دوسرے کو محسوس ہی نہ ہو۔ حملہ ایسا ہونا چاہیے کہ دوسرے کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ کیو کشن کا فلسفہ یہی سچائی ہے کہ خالی ہاتھ لڑائی کا فن نمائشی لڑائی نہ رہے بلکہ حقیقی زندگی میں اس پر عمل ہوسکتا ہو۔کیوکشن یہی سچائی سکھاتا ہے کہ جب حملہ کرو تو شیر کی طرح کرو اورضرب لگاؤ تو ایسی لگاؤ کہ اس کا اثر گہرائی تک جائے۔

جو ضرب کلیمی نہیں رہتا وہ ہنر کیا

میں نے اپنے ایک بیٹے کا نام کلیم علامہ اقبال کی کتاب ضربِ کلیم کو سوچ کر رکھا تھا۔ یہ کتاب مجھے بہت پسند ہے ۔مجھے لگتاہے کہ اگر علامہ اقبال زندہ ہوتے تو وہ بھی کیوکشن کو بہت پسند فرماتے۔ علامہ اقبال سے محبت کی وجہ سے مجھے لاہور سے محبت ہے ۔اگر میرے والد صاحب کراچی میں نہ ہوتے تو میں لاہور میں رہنا پسند کرتا ۔ میں کیوکشن کو اس لیے بہت پسند کرتا ہوں کہ اس کا فلسفہ مجھے اقبال کی شاعری کے قریب محسوس ہوتاہے ۔ سوسائی ماسو اویاما نے کہا تھا کہ نوجوانوں میں خالی ہاتھ دفاع کا جذبہ اور کیوکشن کی مقبولیت مغرب کے ہتھیاروں کے خلاف ایک خاموش احتجاج ہے۔ ہم دنیا کو ہتھیاروں سے بھرنے کے خلا ف ہیں ۔مہلک ہتھیار جن کی مدد سے دور ہی دور سے اپنے دشمن کو ختم کردیاجاتاہے اور بہادروں کی طرح آمنے سامنے آکر لڑائی نہیں کی جاتی، دنیا کے فیصلے بزدلوں کے حوالے کرنے کا ایک ذریعہ ہیں ، اس لیے ہم ان ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ ماسو اویاما دراصل ایک سمورائی تھا جو کہ قدیم تہذیب کو پسند کرتے تھے اور جدید ہتھیاروں کو بزدلی سمجھتے تھے ۔ ماسو اویاما مسلمان نہیں ہوا۔ کاش وہ مسلمان ہوجاتا ۔ وہ جاپانی روایات اور بہادری کو بہت پسند کرتا تھا۔ اسے مسلمانوں کی بہادری پسند تھی ۔اسے صحابہ کرام کی کچھ باتیں معلوم تھیں اور کبھی کبھی میرے سامنے وہ مسلمانوں کی تاریخ کے بارے میں باتیں کرتا تھا۔اس نے کیوکشن کا فلسفہ قوت،برداشت اور ضرب رکھا تھااور وہ اسے سچائی پر مشتمل معاشرہ کہتا تھا ۔اس کا خیال تھا کہ طاقت فیصلے کرتی ہے۔اسی لیے وہ ٹچ سسٹم کے خلاف تھا۔ برداشت کرو،مقابلہ کرو اور ضرب لگاؤ ،یہ مارشل آرٹ ہے ۔

یہ غالباً 1979ء کی بات ہوگی،ایک دن مجھے ایشین چیف ماسٹر پیٹر چانگ کا فون آیا کہ تم سنگا پور پہنچو۔ وہاں ایک مقابلے میں تمھیں شرکت کرنی ہے۔ میں نے مقابلے کی تفصیل پوچھی تو وہ کہنے لگے کہ یہ پؤانٹ والوں کا مقابلہ ہے ، اس میں فل باڈی کنٹیکٹ والوں کو شرکت کی اجازت نہیں ہے ۔ وہ ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں اس لیے ہمیں کبھی بھی شرکت نہیں کرنے دیں گے۔ تمھیں شاید نہ جانتے ہوں،میں چاہتا ہوں کہ تم اس مقابلے میں شرکت کرو تاکہ ہمارا پیغام نئے کھلاڑیوں تک پہنچ سکے ۔ میں نے پوچھا کہ اگر میں مقابلے میں شریک ہوکر اصول کی خلاف ورزی کروں گا تو اس کا جرمانہ بھی بھرنا ہوگا؟پیٹر چانگ نے ہنس کر جواب دیا کہ وہ میں بھر دوں گا ،تم بس مقابلے میں شرکت کے لیے آجاؤ ۔ کچھ دن میرے پاس بھی رہ لو گے۔ میں سمجھ گیا کہ پیٹر چانگ ایک تیر سے دوشکار کرنا چاہتا ہے۔ میں نے مقابلے میں شرکت کےلیے درخواست بھیج دی ۔ اسٹائل کا نام نہیں لکھا بلکہ لکھ دیا کہ خود ہی مشق کرتا رہتا ہوں۔

مقررہ تاریخ پر میں سنگا پور پہنچ گیا۔ پیٹر چانگ کے پاس نہیں گیاتاکہ مجھے ان کے ساتھ دیکھ کر کوئی پہچان نہ لے ۔ سنگاپور چھوٹا سا شہر ہے ۔اس میں ایک شعبے کے سب ہی لوگ دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔مقابلے کے منتظمین نے مجھے دیکھ کر سوچا کہ اس کا نام کسی اچھے فائٹر کے ساتھ ڈال دیتے ہیں تا کہ اس فائٹر کو ایک حلوہ مقابلہ مل جائے اور وہ آسانی سے اگلے مرحلے میں داخل ہوجائے ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ پاکستان سے آیا ہے تو اسے کیاآتا ہوگا؟ مقابلوں میں جب میری باری آئی تو پیٹر چانگ کے ایک دو شاگرد تماشائیوں میں موجود تھے اور ان کے چہروں سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت لطف اندوز ہونے والے ہیں۔ مقابلہ شروع ہوا تو میں نے اپنے مخالف کو کچھ دیر کھلایا پھر ایک ہی ایسی ضرب لگائی کہ وہ ناک آؤٹ ہوگیا۔ اس پر مقابلے کے منتظمین ناراض ہوگئے ۔انھوں نے مجھے گھیر لیا ۔ کوئی دھکے دے رہا تھا اور کوئی کپڑوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اس نے ہمیں بے وقوف بنایا ہے ۔ میں ان کے ہاتھوں دھکے کھا کر باہر نکلا تو پیٹر چانگ کے شاگرد بھی نکل آئے ۔ وہ گاڑی میں بٹھا کرمجھے کلب لے گئے۔ پیٹر چانگ کو شاید انھو ں نے کسی ذریعے سے اطلاع کردی تھی۔ میں اس کے پاس پہنچا تواس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ کہنے لگے کہ انھیں تم پر شک ہوگیا ہے کہ تم کیوکشن والے ہو۔ اسی لیے مار کھانے کے باوجود ڈھیٹ بنے ہوئے ہو۔اب کل ان کے بندے تمھیں دیکھنے کے لیے یہاں آئیں گے ۔ واقعی ایسا ہی ہوا۔ اگلے دن مقابلے کے منتظمین میں سے چند بندے پیٹر چانگ کے پاس پہنچ گئے ۔ مجھ سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ تم نے واقعی ہمیں بے وقوف بنالیا ۔ ان سے دوستی ہوگئی ۔سنگاپور میں گھومنے کے دوران بھی کافی کھلاڑیوں نے مجھے پہچان لیا۔ کچھ لوگ مجھے نام سے بھی جانتے تھے ۔ میں پردیس جاتا ہوں تو کھانے پینے میں بہت کنجوسی کرتا ہوں۔ لیکن اس سفر میں پیٹر چانگ نے بھی میری مہمانی کی اور نئے دوستوں نے بھی کافی گھمایاپھرایا اور خوب کھلایا پلایا۔(جاری ہے)