Lion

اصل بادشاہ کون؟

شفقت محمود ساجد

’’ دوڑو ! دوڑو ! دوڑو ! اپنی جان بچانے کے لیے دوڑو !
ہمارے دانت بہت تیز ہیں ۔

ہم جنگل کے بادشاہ ہیں ۔ ‘‘
یہ جڑواں بھائیوں کالو اور پیلو کا گیت تھا ۔ وہ دونوں چھوٹے سے شیر تھے وہ ابھی اتنے خون خوار نہیں بنے تھے اور تنہا شکار نہیں کر سکتے تھے ۔ اس کے با وجود وہ اپنے آپ کو طاقت ور سمجھ کر بہت خوش ہوتے تھے ۔ اکثر ایسے کھیل کھیلتے تھے کہ دوسرے انھیں دیکھ کر خون خوار اور طاقت ور سمجھیں ۔

کالو اور پیلو اپنی امی کے ساتھ ایک ایسے جنگل میں رہتے تھے ، جہاں بہت اونچے اونچے درخت تھے ۔ وہ کبھی جھاڑیوں میں آنکھ مچولی کھیلتے اور کبھی رنگین تتلیوں کے پیچھے دوڑتے ۔ باقی جنگل بہت گھنا تھا ، اس لیے کالو اور پیلو بہت مشکل سے گزر سکتے تھے ۔ ان حصوں میں ہر چیز گہرے سبز رنگ کی لگتی تھی ۔ جنگل میں سے ایک دریا گزرتا تھا ۔ اس کے کنارے پر پانی میں بانس کے پودے اگے ہوئے تھے ۔ یہ پودے کالو اور پیلو سے قد میں بہت بڑے تھے مگر وہ اپنے آپ کو اتنا بہادر سمجھنے کے با وجود ان پر نہیں چڑھ سکتے تھے ۔
ایک دن کالو اور پیلو کی امی نے انھیں کہا ۔

’’ اگر تم درختوں پر چڑھنے کی کوشش چھوڑ دو ، تو مجھے بہت خوشی ہو گی ۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے امی ! آیندہ ہم ایسا ہی کریں گے ۔ ‘‘ دونوں نے ایک ساتھ کہا ۔

’’ اب تم دونوں آرام کر لو … ‘‘
’’ وہ کیوں ؟ ‘‘

’’ دن میں شیروں کو آرام کرنا چاہیے … رات کو ہم مل کر شکار کرنے جائیں گے ۔ ‘‘
اتنا کہہ کر کالو اور پیلو کی امی سو گئیں ، مگر کالو اور پیلو کو نیند نہیں آ رہی تھی ۔ وہ اس وقت شکار کرنا چاہتے تھے ، اس لیے وہ خاموشی سے کچھار سے باہر نکل پڑے ۔

درختوں پر بہت سے چھوٹے چھوٹے بندر بیٹھے ہوئے تھے ۔ انھوں نے کالو اور پیلو کا گیت سنا ، تو ادھر ادھر بھاگ گئے ۔ دریا میں ایک ہاتھی کھڑا تھا ۔ اس نے انھیں آتے دیکھا ، تو مسکرا کر بولا ۔
’’ اے کالو … ہالو پیلو … ! ‘‘

اتنا کہہ کر اس نے اپنی سونڈ میں پانی بھر کر ان پر پھینکا ۔
’’ ہم جنگل کے بادشاہ ہیں ۔ ‘‘ پیلو نے کہا ۔

’’ کیا تم واقعی جنگل کے بادشاہ ہو ؟ ‘‘ ہاتھی نے خوش دلی سے کہا ۔
’’ کیا تمھیں شک ہے ؟ ‘‘ دونوں بولے ۔

’’ اگر میں تم دونوں کو اپنے نیچے دے کر کچل دوں ، تو پھر جنگل کا بادشاہ کون ہوگا ؟ ‘‘
’’ ہم تمھیں کچا چبا جائیں گے ۔ ‘‘

یہ سن کر ہاتھی ہنستے ہوئے بولا ۔
’’ بہت اچھا ! تم ہی جنگل کے بادشاہ ہو ۔ ‘‘

کالو اور پیلو آگے چل پڑے ۔
’’ میں یہ نہیں کر سکتا ۔ ‘‘

اچانک انھیں قریب سے آواز سنائی دی ، تو وہ چونک پڑے ۔ انھوں نے اوپر دیکھا ، تو ایک درخت پر ایک بہت لمبا اژدھاکہہ رہا تھا: ’’ میں معذرت خواہ ہوں کہ میں یہ نہیں کر سکتا ۔ ‘‘
’’ کیا نہیں کر سکتے ؟ ‘‘ کالو نے پوچھا ۔

’’ میں اپنی جان بچانے کے لیے نہیں بھاگ سکتا ۔ ‘‘
’’ وہ کیوں ؟ ‘‘ پیلو نے پوچھا ۔

’’ اس لیے کہ میری ٹانگیں نہیں ہیں ۔ ‘‘
’’ پھر رینگ کر چلے جاؤ ۔ ‘‘

’’ کیا واقعی تم جنگل کے بادشاہ ہو ؟ ‘‘
’’ تمھیں شک ہے ؟ ‘‘

’’ میں اگر تم دونوں کو اپنی دم میں جکڑ لوں ، تو پھر اس جنگل کا بادشاہ کون ہوگا ؟ ‘‘
’’ ہم تمھیں کچا چبا جائیں گے ۔ ‘‘ کالو نے کہا ۔

یہ سن کر اژدھا ہنس پڑا اور اس نے انھیں جنگل کا بادشاہ مان لیا ۔
جب بھی وہ کسی جانور سے ملتے ، تو اپنے جنگل کے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتے اور ہر مقابلہ جیتنے کی بڑھکیں مارتے ۔ انھوں نے ایک سیہ کو بھی بتایا ۔

’’ ہم جنگل کے بادشاہ ہیں ۔ ‘‘
وہ اپنی کانٹوں بھری دم ان کی طرف کر کے بڑھا ، تو وہ پیچھے ہٹ گئے ۔

کالو اور پیلو نے پانی میں کھڑی ایک بھینس اور ایک بگلے کو بھی اپنے بارے میں بتایا کہ وہ جنگل کے بادشاہ ہیں مگر بگلا اپنی خوراک ڈھونڈتا رہا جب کہ بھینس نے بھی ڈکار مارنے کے سوا انھیں کوئی جواب نہ دیا ۔ کالو اور پیلو نے چلا کر ایک اور پرندے کو بھی بتایا ۔
’’ ہم جنگل کے بادشاہ ہیں ۔ ‘‘

وہ ایک درخت پر اونچا بیٹھا ہوا تھا ۔ اس نے ان کی بات سن کر کہا ۔
’’ مجھے تم دونوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی … مگر مجھے اب اڑنا پڑے گا ، کیوں کہ مجھے ایک بہت ضروری کام ہے ۔ ‘‘

اب جنگل میں اندھیرا پھیل رہا تھا ۔ رنگین تتلیاں بھی غائب ہو چکی تھیں ۔ ان کی جگہ پتنگوں نے لے لی تھی ۔ اچانک کالو اور پیلو کو ایک ہلکی سی آواز آئی ۔
’’ بھن ! بھن ! بالکل نہیں … تم جنگل کے بادشاہ نہیں ہو … بھن ! بھن ! ‘‘

’’ تم کون ہو ؟ ‘‘ کالو بولا ۔
’’ تم کہاں ہو ؟ ‘‘ پیلو نے پوچھا ۔

’’ میں ایک ننھا سا مچھر ہوں … تم دونوں مجھے بڑی مشکل سے دیکھ سکتے ہو ۔ ‘‘ اس آواز نے کہا ۔ ’’ میں کالو کی کھال میں چھپا ہوا ہوں یا پیلو کی کھال میں … تم دونوں مجھے جنگل کا بادشاہ مان لو ۔ ‘‘
یہ سن کر انھیں بہت مزا آیا کہ ایک ننھا سا مچھر جنگل کا بادشاہ ہے ۔ پھر کالو نے کہا: ’’ تم ہمارے سامنے آؤ ۔ ‘‘

پھر وہ دونوں اپنی کھالوں کو اپنے پنجوں سے جھاڑنے لگے ۔ مگر وہ مچھر ان سے مقابلہ کرنے کے لیے نہ آیا ۔ اس کے بجائے اس نے کالو اور پیلو کو بتایا : ’’ میں تمھیں ڈنک مارنے لگا ہوں ۔ ‘‘
اب تو کالو اور پیلو کو اپنی کھالوں میں خارش سی محسوس ہونے لگی ۔ انھوں نے اپنے پنجوں سے اپنی کھالوں کو جھاڑا ۔ کمر کے بل گھاس پر لوٹ پوٹ بھی ہوئے ۔ انھوں نے چھلانگ لگا کر مچھر پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ مچھر بہت تیزی سے کبھی کالو اور کبھی پیلو کی کھال میں چھپ جاتا ۔ ان دونوں کو ذرا بھی پتا نہ چلتا کہ مچھر اس وقت کس کی کھال میں چھپا ہوا ہے ۔

مچھر بھن بھن کر رہا تھا ۔ کالو اور پیلو کو بہت خارش ہو رہی تھی ۔ وہ مجبور ہو کر بولے ۔
’’ ہمیں ڈنگ نہ مارو ۔ ‘‘

’’ ایک شرط پر … ‘‘
’’ شرط … کیسیشرط ؟ ‘‘

’’ تم مجھے بادشاہ مان لو ۔ ‘‘
’’ ہم مانتے ہیں کہ تم ہی اس جنگل کے بادشاہ ہو ۔ ‘‘