Children Bed

پھر دیر کردی ناں!

عمارہ اقبال۔ قائم پور

’’ عباس بیٹا… او عباس… ذرا پانی پلادو… ‘‘
ابا جی نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے پکارا لیکن جواب ندارد حالانکہ وہ ذرا سا ہی دور لاؤنج میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔

’’ پتر… پانی پلادے… مرنے لگا ہوں… پھر لے آئے گاکیا؟…‘‘
اب کے ابا جی نےذرا جذباتی رویہ اپنایا۔ عباس ذرا سا چونکا، ہونہہ بھی کیا لیکن گیم ایسے مرحلے پر پہنچی ہوئی تھی کہ ذرا سا بھی وہ ہلتا تو پچھلے دو گھنٹوں کی’’ محنت ‘‘ بے کار جاتی۔ اس وقت صرف گیم تھی اور عباس ۔باقی پوری دنیا اپنا وجود کھوچکی تھی۔ بالآخر ابا جی اٹھے اور بمشکل دو چارپائیاں گزر کر میز تک پہنچے۔ پانی ڈالا اور عصا کا سہارا لے کر مڑے۔ عصا کا پچھلا سرا جگ کو لگا اور جگ الٹ کر چکنا چور ہوگیا!!

اگلے ہی لمحے عباس بوتل کے جن کی طرح حاضر تھا۔
’’ابا جی کیا کرتے ہیں، اف خدایا… پانی پینا تھا مجھے بلا لیتے، پتا ہے ٹانگ ٹھیک طرح رکھی نہیں جاتی۔یہیں تو بیٹھا ہوا تھا۔‘‘

یہاں تک بول کر سن ہوئے دماغ میں یادداشت نے ذرا سا کام کیا تو فوراً شرمندگی نے آگھیرا۔
’’آتو رہا تھا ابا جی تھوڑی دیر صبر کرلیتے آپ بھی ناں بس… فوراً سب کچھ حاضرچاہیے…‘‘

ابا جی چپ چاپ ٹھک ٹھک کرتے چارپائی پر جا بیٹھے۔ خاموشی سے اسے سنا ،پانی پیا اور اپنا عصا پکڑ کر ہاتھ میں سیدھا چارپائی پر غصے سے کھٹکادیا۔
’’اوئے ادھر ادھر دیکھ میری طرف… ‘‘

ابا جی نے اتنی درشت آواز میں پکارا کہ کانچ چھوڑ کر چونکتے ہوئے ان کی طرف مڑا۔
’’تجھے کیا لگتاہے ایک آواز دی تھی میں نے؟ دماغ خراب ہے تیرا، اور یہ کیا کیا تونے… !مار مار کے ناں تیرا سر کھول دینا ہے میں نے، میں نو سال کا تھا میرے مدرسے والے استاد نے مجھے بتایا ماں باپ کو اف بھی نہیں کہنا۔ میری جرأت نہیںہوئی ساری زندگی ماں باپ کے آگے تیکھا بولنے کی۔ تونے نہیں پڑھا قرآن میں، اللہ کیا کہتا ہے، تیری ہمت کیسی ہوئی اللہ کی بات الٹنے کی؟‘‘

ابا جی کا غیظ و غضب سے بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنی لاٹھی سے سارے شیطان نکال دیں۔
’’ابا جی میں نے تو ویسے ہی ہمدردی میں کہا تھا کہ یہ کیا کیا آپ نے؟ میں نے بدتمیزی تو نہیں کی۔ ‘‘عباس نے دھیما سا من من کرنے کی کوشش کی جواباً جی کے کانوں تک نہ پہنچی۔ ’’جب کبھی بلائوں تونے کبھی سنا بھی ہے؟؟ خود اٹھ کے کھالوں گا، خود پی لوں گا، تب آکے کھڑا ہوجائے گا، ابا جی آرہا تھا، ابا جی میں کر ہی دیتا، میں نے کرنا ہی تھا، کیا تماشا ہے، پتری! وہ کوئی اورہی ابا جی ہوتے ہوں گے مسکے لگاتے، میں تو ایک لگاؤں گا کمر میں، یوں نہیں چھوڑوں گا کہ کرتے پھرو امی ابا کی بے ادبیاں جہنم میں جانے کیلئے، ساری عمر لگادی کھلایا پلایا پڑھایا اس لیے نہیں کہ تم لوگ دوزخ میں جائو، بچو فکر نہ کر، یہ جوتو نے اتنے بڑے بڑے متھے پر لگا رکھے ہیں بال انہی سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا جنت میں لے کے جاؤں گا۔‘‘

عباس نے بمشکل ہنسی روکی۔ اپنے سادہ سے ابا جی پر اسے خوب پیار آیا، جنھوں نے عہد کر رکھا تھا اسے جنت میں لے جانے کا۔ جلدی جلدی کانچ سمیٹا، باہر دفنا کر آیا اور واپسی پر لاؤنج میں پڑے موبائل سے گیم ڈیلیٹ کی اور وہیں رکھ آیا۔ تیل کی شیشی اٹھا کر ابا جی کی چارپائی پر آکر معصوم سی شکل بنا کر کھڑا ہوگیا کہ اب اجازت ملے تو بیٹھوں ورنہ ڈر تھا ایک آدھ پڑ ہی نہ جائے۔
ابا جی نے پہلے تو گھور کر دیکھا اور پھر ہنستے ہوئے بولے :

’’اب کیا کھڑا ہے چوروں کی طرح بیٹھ جا… آہی گیا ہے تو مالش کردے۔
ہونٹ بھنچے ہوئے تھے لیکن گوشوں میں جھانکتی مسکراہٹ نے اسے سرشار کردیا۔ خوشی اور جوش کی ملی جلی کیفیت میں جو دھم چارپائی پر سے چڑھا تو ابا جی کی ٹانگ رگری گئی۔ خیر برداشت کر گئے، ابا جی نے سی تو کی لیکن عباس کے پاس بے چارگی سے نہ محسوس ہونے کا تاثر دینے کے علاوہ کیا حل تھا، سو جلدی جلدی اپنے تئیں خوب زور سے مالش کی۔

ابا جی کی چیخ گونجی:
’’کیا کر رہا ہے یار… آرام سے مالش کر ایسا لگ رہا ہے دوبارہ ہڈی ٹوٹ گئی ہو۔‘‘ ’’ابا جی!میں سوچ رہا ہوں چلو آپ کے ساتھ اڑ کے چلا جاؤں ورنہ پتا نہیں کیا بنے گا۔ اعمال تو ہیں نہیں ایسے…‘‘

’’ جبھی میری ٹانگ توڑ رہا ہے تاکہ اپنی اڑا سکے، بچو غصے نہ نکال ٹوٹ گئی ناں تو تیری توڑ کے لگوالوں گا۔ میں تو ان شاء اللہ اپنے پیروں پر جنت جاؤں گا تجھے البتہ سوٹی سے لٹکالوں تھیلےکے ساتھ۔‘‘
ابا جی جنت کے ذکر پر ساری بات بھول کر اپنے پسندیدہ تصور میں کھوگئے۔ عباس نے دل میں شکر ادا کیا، ابا جی سخت تھے لیکن بہت ہی بھولے تھے۔ساری نادانیوں کے بعد ساری لاپروائیوں کے بعد بھی ذرا سی بات پر خوش ہوجاتے تھے، جہاں اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جنت کی بات آئی کسی بچے کی طرح ہر چیز پسندیدہ کھلونے کے تصور کے بدلے بھول جاتے تھے، بس اللہ کی بات کے اوپر کوئی بندہ اپنی بات کرتا تو وہ ان سے بالکل برداشت نہیں ہوتی تھی، صحیح بات ہے اللہ کی بات سے اوپر کس کی بات ہے!

آج کافی سالوں بعد عباس اپنے اباجی سے ملنے جارہا تھا تو ماضی کو یاد کرکے کبھی وہ مسکرانے لگتا تو کبھی آنکھیں بھیگ جاتیں۔
’’آپ کی منزل آگئی سر!‘‘

ڈرائیور نے اسے بتایا تو وہ جیسے خواب سے جاگا۔ گاڑی سے اترتے ہی اس نے ایک نگاہ قبرستان پر ڈالی۔ مرکزی دروازے کے پاس ہی اباجی کی قبر تھی۔ وہ دعائوں کا تحفہ دینے پاس پہنچ گیا۔
’’پتر!پھر دیر کردی ناں!‘‘

اچانک کہیں سے اباجی کی آواز آئی ۔ وہ ڈھے سا گیا۔ آنسو بہتے چلے گئے۔ دل تڑپتا چلا گیا۔ اباجی کی بات سننے میں تاخیر کی عادت پر ہونے والے پچھتاوے سے اس کا دم گھٹتا چلا جارہا تھا۔