آپ کی صحت
ڈاکٹر ام محمد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
س: ڈاکٹر صاحبہ! میرے تین بچے ہیں۔ سب سے بڑے کی عمر۱۴برس ہے، پھر دس سال پھر چھے سال مگر مسئلہ یہ ہے کہ اتنے بڑے ہوجانے پر بھی مٹی کھانا نہیں چھوڑتے۔ جسم بالکل کمزور اور آنکھیں زرد ہوگئی ہیں۔ غذا میں انڈے اور پھل سب کھلاتے ہیں مگر انھیں کچھ کھایا پیا لگتا نہیں۔ براہِ مہربانی کوئی اچھی سی دوا تجویز فرمادیں۔ (اہلیہ قاری حشام۔ پسرور)
ج: محترمہ اہلیہ حشام!
جب بچوں کے پیٹ میں کیڑے ہوتے ہیں تو خوراک ان پر بالکل نہیں لگتی۔ ورموکس وغیرہ کیڑے تو نکال دیتی ہیں مگر انڈے آنتوں میں رہ جاتے ہیں جو کچھ ماہ بعد پھر کیڑے بن جاتے ہیں۔ آپ دوا Cina30 اور Santonine30 کے 4-4 قطرے دن میں تین مرتبہ دے دیا کریں۔ ان شاء اللہ ایک دو ماہ مسلسل کھلانے سے ٹھیک ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ہمدرد کا خمیرہ مروارید تین گرام ایک ماہ تک رات میں دے دیا کریں۔ علاوہ ازیں خیال رکھیں کہ بچے الگ لگ بستروں پر سویا کریں۔
س: باجی صاحبہ! میری آنکھوں کا مسئلہ ہے۔ تقریباً پانچ چھے سال سے دُکھتی ہیں۔ جب دوائیں ڈالتی رہوں تو ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ کچھ عرصے میں پھر ویسے ہی ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر الرجی کہتے ہیں۔ ہر وقت سرخ رہتی ہیں، میرا پڑھنا پڑھانے کا کام ہے بہت حرج ہوتا ہے۔ (م۔خ۔ حیدر آباد)
ج: محترمہ م۔ خ صاحبہ!
آن لائن پڑھانے میں موبائل یا لیپ ٹاپ کے استعمال میں احتیاط کریں۔ مناسب فاصلے اور روشنی کا انتظام بھی مناسب ہونا چاہیے۔ آپ دوا Ruta 30 اور Eupharasia30 کے 4-4 قطرے دن میں چار مرتبہ لے لیا کریں۔ اس کے ساتھ قبض کے مسئلے کے لیے آپ روزانہ صبح گل منڈی ۵ گرام، شاہرہ ۵ گرام، تخم ملیٹھی۶ گرام، بادیان ۶ گرام، اِن نباتات کو دو کپ پانی میں خوب جوش دیں، پھر چھان کر پی لیں۔ پندرہ بیسدن مسلسل کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ قبض کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ بعض اوقات آنتوں میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اُس کی وجہ سے بھی آنکھیں متاثر ہوتی ہیں۔
س: باجی ام محمد صاحبہ! میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے ایام بہت تکلیف سے اور وقت سے پہلے آتے ہیں۔ لیکوریا بھی بہت زیادہ ہے۔ اصل مسئلہ درد کا ہے جو کہ اب بہت بڑھ گیا ہے۔ والدہ صاحبہ حیات نہیں، آپ سے امید ہے کوئی مناسب علاج تجویز کردیں۔ (بنت ارشد ریحان۔ لاڑکانہ)
ج: محترمہ بنت ارشد ریحان صاحبہ!
آپ کو سہولت ہو تو الٹرا ساؤنڈ کروالیں۔ ویسے آپ دوا Pepia30 اور wiesbadeu30 کے 4-4 قطرے دن میں چار مرتبہ لے لیا کریں۔ لیکوریا کے لیے Ovatosta30 کے 4-4 قطرے۔ دیسی نسخہ ہے کہ ’ریشہ انجبار‘ چھے گرام ایک کپ پانی میں ماہواری شروع ہونے سے ایک ہفتے پہلے پینا شروع کردیں، ان شاء اللہ تعالیٰ اس سے بہت فرق پڑے گا۔
س: ڈاکٹر صاحبہ! میرے والد کی عمر 70-65 سال ہے، انھیں معدے میں جلن اور قبض کا مسئلہ ہے۔ تیزابیت کی وجہ سے الٹیاں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔ کمزوری بہت بڑھ گئی ہے۔ کوئی دوا تجویز کردیں۔ (آمنہ فریال۔ نواب شاہ)
ج: محترمہ آمنہ!
آپ والد صاحب کو دوا Collensonia30 اور Sulpher30 کے 4-4 قطرے دن میں تین مرتبہ دے دیا کریں۔ اس کے ساتھ رات میں Carb.Veg 200 کے 5-4 قطرے ایک چمچ پانی میں ملا کر دے دیا کریں۔ رات میں کھانے کے بعد اور صبح نہار منہ چھوٹا چائے کا چمچ گل قند بھی دے دیا کریں۔ ہلکی اور زود ہضم غذا دیں۔ ہو میو پیتھک کا Hyzo Syrup کمال لیبارٹری کا بھی اس حوالے سے بہت اچھا ہے۔
٭٭٭
نمائش
بنت مولوی شبیر احمد۔وہاڑی
پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ ملگجا سا اندھیرا چہار سو پھیلنے کو بے تاب تھا۔ ماحول میں عجیب سی اداسی گھلی ہوئی تھی۔ عاتکہ بیگم نے توے سے آخری روٹی اتار کر ہاٹ پاٹ میں رکھی اور باورچی خانہ سمیٹ کر باہر آگئیں۔
’’صنوبر نجانے کدھر ہے، ابھی تک بتیاں نہیں جلائیں۔‘‘
وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’صنوبر بیٹا! خیریت تو ہے؟ شام کے وقت کمرے میں اندھیرا کیے لیٹی ہو؟‘‘
یہ کہتے ہوئے عاتکہ نے لائٹ آن کردی۔ پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا۔
’’کچھ نہیں امی! بس سر میں درد ہے۔‘‘
صنوبر نے آنکھوں پر بازو رکھا اور کروٹ بدل لی، مبادا اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ماں پریشان ہوجائے۔
عاتکہ بیگم مگر جہاندیدہ خاتون تھیں، وہ اس کی پریشانی بھانپ چکی تھیں مگر اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھیں، تبھی ہلکے پھلکے انداز میں بولیں:
’’چلو اٹھو، کھانا نکالو، بھوک کی وجہ سے ہو رہا ہوگا درد، تمھاری پسند کا بھنڈی گوشت بنایا ہے۔‘‘
’’نہیں امی! مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
’’لو! ایسے کیسے بھوک نہیں ہے۔ تم جانتی ہو نا کہ میں تمھارے ساتھ ہی کھانا کھاتی ہوں، میری بھوک کا ہی خیال کرلو۔‘‘
عاتکہ بیگم نے مصنوعی طور پر ناراض لہجے میں کہا، پھر صنوبر کو اٹھتا دیکھ کر زیرِ لب مسکرا دیں۔
٭…٭
’’السلام علیکم خالہ! صنوبر کہاں ہے؟‘‘
ببلی نے عجلت بھرے انداز میں پوچھا۔
’’وعلیکم السلام! چھت پر کپڑے پھیلانے گئی ہے، خیریت ہے بیٹا! جلدی میں لگ رہی ہو؟‘‘
’’جی خالہ! تھوڑا کام تھا صنوبر سے۔‘‘
ببلی نے جلدی سے جواب دیا اور تیز تیز سیڑھیاں پھلانگنے لگی۔
’’صنوبری! تمھیں ابھی تک کام سے فرصت نہیں ملی۔ چلو اب جلدی سے تیار ہوجاؤ۔‘‘ببلی نے اس کے ہاتھ سے بالٹی لیتے ہوئے کہا۔
’’کیوں؟ کہاں جانا ہے؟‘‘
’’آفرین ہے بی بی تم پر! آج صغریٰ کے جہیز کی ’نمائش‘ ہے محترمہ! تمھیں تو پتا ہے نا مجھے کتنا شوق ہے جہیز دیکھنے کا۔‘‘
ببلی نے اسے بازو سے گھسیٹتے ہوئے کہا۔
’’تم جانتی ہو تو نا ببلی کہ میں ایسی محفلوں میں نہیں جاتی، تم چلی جاؤ۔‘‘
صنوبر کہتے ہوئے نیچے اتر گئی۔
’’ارے! ایسے کیسے چلی جاؤں، میں خالہ سے پوچھتی ہوں، تم بس چلو میرے ساتھ اور سچ میں وہاں پر کوئی مرد نہیں ہے، میں نے ابھی اپنی چھت سے دیکھا تھا۔‘‘
صنوبر کے بارہا انکار کے باوجود ببلی اسے اپنے ساتھ گھسیٹ لائی تھی۔
جہیز دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئی تھیں۔ یوں لگتا تھا گویا پورا بازار خرید کر گھر میں سجادیا گیا ہو۔
ببلی ایک کے بعد ایک چیز دیکھ رہی تھی مگر وہ تو جیسے ایک ہی جگہ منجمد ہوگئی تھی۔
اُس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ اسے بے اختیار اپنے بابا کی یاد آئی۔ وہ سوچنے لگی کہ کاش اس کے بابا زندہ ہوتے یا اس کا ایک بھائی ہی ہوتا تو آج وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوتی۔ وہ زیادہ دیر وہاں پر ٹھہر نہ سکی اور سر درد کا بہانہ بنا کر گھر لوٹ آئی، تب سے کمرے میں اندھیرا کیے لیٹی ہوئی تھی۔
٭…٭
صنوبر نے ماں کے اصرار پر چند لقمے حلق سے اتارے اور برتن ایک طرف رکھ کر وہیں لیٹ گئی۔
’’میری دھی رانی کیا سوچ رہی ہے؟‘‘عاتکہ نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’امی! کاش ہمارا گھرانا بھی پیسے والا ہوتا۔‘‘
صنوبر نے دکھ سے کہا اور اس کی آنکھوں سے دو آنسو نکل کر بالوںمیں گم ہوگئے۔
’’ایسے نہیں بولتے بیٹا! تم امیر گھرانے میں پیدا نہیں ہوئی تو کیا ہوا، شکر کرنے کے لیے یہ کافی نہیں کہ تم ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوئی ہو؟!‘‘
عاتکہ بیگم نے رسان سے سمجھایا۔
’’امی! مسلمان گھرانے میں تو صغریٰ بھی پیدا ہوئی ہے، انھیں اللہ نے کس قدر مال و دولت سے نوازا ہے۔ ان کے گھر جاکر دیکھیں ایسا لگتا ہے اس کا جہیز نہیں کوئی شاپنگ مال ہو۔‘‘
’’بیٹا! خود جہیز کی رسم ہی اور شادی کی رسومات انتہائی غیرضروری اور فضول خرچی ہے، جس سے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے، پھراس کی نمودونمائش تو بہت ہی غلط ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر کوئی اچھا پھل کھاؤ تو اس کے چھلکے باہر سامنے مت پھینکو کہ کہیں غریب، یتیم بچہ وہ دیکھ لے اور اس کے دل سے ’آہ‘ نہ نکل جائے۔‘‘
عاتکہ بیگم نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’یہ سب باتیں جہیز کی نمائش والے نہیں جانتے کیا اماں؟ کیا جہیز کی نمائش کرکے مجھ جیسی غریب اور یتیم بچیوں کا دل دُکھانا فرض ہے؟ یہ نمائشیں دیکھ کر ہمارا دل کتنا دکھتا ہے کیا اس کا حساب نہیں لیا جائے گا ان سے؟!‘‘
یہ کہتے ہی صنوبر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
عاتکہ بیگم بیٹی کو سمجھانے اور زمانے والوں کے رسم و رواج پر سوائے افسوس کرنے کے کچھ نہیں کرسکتی تھیں!
وہ دل میں سوچ رہی تھیں کہ کاش وہ ایسے لوگوں سے کہہ سکیں کہ اگر اللہ نے آپ لوگوں کو مال و دولت سے نوازا ہے تو اسے اپنی استطاعت کے مطابق جائز مد میں ضرور خرچ کریں مگر نمود و نمائش کرکے یتیم اور بے سہارا بچیوں کی آہیں تو نہ لیں۔
٭٭٭