عائشہ تنویر
ساجن کی یادیں بھی خاورؔ کن لمحوں آجاتی ہیں
گوری آٹا گوندھ رہی تھی نمک ملانا بھول گئی
سچ تو یہ ہے کہ ساجن کی یادیں ہی نہیں، دروازے پر ڈاکیا، فون پر اہم کال، واٹس ایپ پر نوٹیفکیشن سے لے کر بچوں کی لڑائی تک انہی لمحوں میں ہوتی ہے، جب گوری آٹا گوندھ رہی ہو، کھانا پکا رہی ہو، پھر اگر دودھ ابل جائے یا کھانا جل جائے تو دنیا والے اسے مذاق بنا لیتے ہیں اور رہے سرتاج! وہ اور کچھ نہیں بنا پاتے تو منہ بنا لیتے ہیں۔
اب خود ہی سوچیں، ایک وقت میں کئی محاذ پر نبرد آزما سپاہی زخمی تو ہو ہی سکتا ہے ناں!
اُس پر کیا چخ چخ کرنا۔
مگر ایسا بھی نہیں کہ ہر کوئی ہی تلوار سونتے بیگم کی جان کے درپے ہے۔ کچھ خواتین کی کہانی مختلف بھی ہوتی ہے۔ اب معصومہ بی بی کی ہی سن لیں، فرماتی ہیں:
غضب خدا کا! کہنے کو ہمارے صاحب نے کبھی معیار پر سمجھوتا نہیں کیا لیکن اللہ جانے ہماری باری میں کیسے برتن اٹھا لائے ہیں۔ بس کھانا پکنے رکھ کر ذرا چند گھنٹے اِدھر اُدھر ہی تو گئے تھے، سارا کھانا نان اسٹک برتن میں بھی ’’اسٹک‘‘ ہو گیا۔ کوئی کہے، کھانا ہے یا شوہر کہ اِدھر نظر ہٹائی، اُدھر ہاتھ سے نکلا۔ دوسروں کو تو ہمیشہ اچھی سے اچھی چیز لا کر دیتے ہیں، مجال ہے کبھی ان کی بہنا یا بھاوج سے کھانا ذرا بھی خراب ہو۔
ہاں بھئی مانتے ہیں پرسوں چوتھ جہیز کے برتن میں بھی ہم سے کھانا جل گیا تھا مگر اس میں برتن کا کیا قصور، وہ تو اس موئے سلنڈر کی وجہ سے ہوا تھا۔ ایل پی جی کی آگ ہی ایسی ہووے ہے، منٹوں میں کھانا برباد کر دے۔ ہم نے تو بھئی ہمیشہ سوئی گیس کے چولھے پر کھانا بنایا ہے۔ ہمارے باوا کے گھر تو کبھی نہ ہوئی یہ گیس لوڈ شیڈنگ۔
تبھی تو ہم کہتے ہیں، کھانا پکانا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ویسے یہ نہ سمجھیں کہ شوہر کی برائی کر کے ناشکری کر رہے ہیں۔ ہمارے صاحب دل کے بہت اچھے ہیں۔ جتنی بار بھی کام خراب ہو جائے، غصہ نہیں کرتے، بس ہنسی مذاق میں ٹال دیتے ہیں۔ اکثر کہتے ہیں، جملے سے ’’کھانا‘‘ نکال دو تو ’’پکانے‘‘ میں واقعی تمھارے جیسا کوئی ماہر نہیں…!
دوسرے مرد تو فرمائشیں کر کر کے بیوی کو باورچی خانے سے نکلنے ہی نہیں دیتے اور ہمارے صاحب کہتے ہیں، کھانے کی فکر مت کرو، وہ میں بازار سے لے آؤں گا، زیادہ سستا پڑتا ہے۔ بس تم آرام سے بیٹھو۔ خود کو تھکاؤ مت۔
اب یہ بھی نہ سمجھیں آپ سب کہ ہمیں کچھ بنانا ہی نہیں آتا۔ باتیں بنانے میں تو ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ خیالی پلاؤ بھی ہم بہت اچھا بناتے ہیں۔ صاحب فرمائش کر کے پکواتے ہیں مگر کیا ہے کہ اِس سے زیادہ کوکنگ کرنے نہیں دیتے۔
دراصل ہوا یہ کہ ہم نے اُن سے فرمائش کر دی تھی، تھوڑی سی چرس لا دیں۔ لیں جناب ہونق ہو گئے، آنکھیں پھٹ گئیں اور کانپتی آواز میں پوچھا:
’’کک کک کیوں؟‘‘
ہم نے کہا، پریشان نہ ہوں۔ کوئی نشئی موالی نہیں ہیں ہم، بس چرسی تکہ بنانے کا ارادہ ہے۔ آپ کو بہت پسند ہے تو سوچا خود بھی کوشش کر ڈالیں۔ آخر کو محبت کرنے والی مشرقی بیوی ایسی ہی ہوتی ہے۔ اور آپ تو جانتے ہیں، یہ موئے یو ٹیوب والے اصل ترکیب بتاتے کب ہیں کہ گھر کے کھانے میں ہوٹل جیسا ذائقہ آئے لیکن ہمیں بھی معلوم ہے کہ چرسی تکہ ہے تو چرس تو ڈلے گی ہی۔‘‘
پس انھوں نے چرس تو نہیں لا کر دی مگر اب کچھ بھی پکا لیں تو نجانے کیوں سونگھ سونگھ کر ڈر ڈر کر کھاتے ہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پہلا نوالہ ہمارے منہ میں ڈالتے ہیں، پھر ہی خود کھاتے ہیں۔ پیار ہی اتنا کرتے ہیں۔
ارے بات بھی کہاں سے کہاں نکل گئی! ہم بتا رہے تھے کہ برتن اتنے گھٹیا معیار کے تھے کہ سارا کھانا جل گیا۔ گو ہمیں شوہر کی ڈانٹ کا کوئی خوف نہیں، کھانا تو اپنی خوشی سے بناتے ہیں۔ اب فون کر دیتے ہیں کہ آج بازار سے لے آئیں۔ بہت خوش ہوں گے وہ۔ آپ سب بہنیں بس اتنا بتا دیں کہ بھلا وہ کون سا برتنوں کا اچھا برانڈ ہے، جن میں کھانا جلتا نہ ہو؟
٭٭٭