تشہد کی جگہ سورۂ فاتحہ پڑھ لی:
سوال: سجدہ سہو کرنے کے بعد تشہد کے بجائے سورۂ فاتحہ پڑھ لی، اب یاد آنے پر کیا کرے؟ (ایض)
جواب: تشہد کی جگہ فاتحہ پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہوجاتا ہے، لیکن ایک بار سجدہ سہو کرنے کے بعد دوبارہ سجدۂ سہو نہیں کیا جاتا، لہٰذا اس صورت میں تشہد، اس کے بعد درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔
ایسے کپڑوں کا استعمال جن پر الفاظ لکھے ہوں:
سوال: آج کل کچھ برینڈ کے کپڑے ایسے فیشن میں آئے ہیں کہ ان کے اوپر خاص اندازمیں اردو تحریر لکھی ہوئی ہوتی ہے، اس میں کبھی فارسی و اردو شعری کلام، کبھی اردو مشہور نثری کلام ہوتا ہے، البتہ کوئی مذہبی جملہ یا مقدس لفظ نہیں ہوتا۔ ایسے کپڑوں سے لباس بنانا جائز ہے؟ (اسماء دلدار۔ کلفٹن، کراچی)
جواب: حروف تہجی (ا ب ت…) قرآنی حروف ہیں، ان کا احترام ضروری ہے۔ ان سے مرکب کسی بھی لفظ کی بیحرمتی جائز نہیں اور لباس پر الفاظ لکھنے میں بے ادبی یقینی ہے۔ اس لیے کہ یہ لباس پہن کر انسان بیت الخلاء جائے گا جس میں بے ادبی ظاہر ہے۔ اگر کپڑے کے لکھے ہوئے حصے پر کبھی پیشاب پاخانہ یا کسی قسم کی نجاست لگ جائے تو مزید بے ادبی، نیز یہ لباس پہن کر بیٹھتے یا لیٹتے وقت کبھی یہ الفاظ نیچے آجائیں گے، ایسی کیفیت میں ان پر بیٹھنا لیٹنا بھی بے ادبی ہے۔ یہ بھی مشاہدہ ہے کہ کپڑا جب پرانا اور بوسیدہ ہوجاتا ہے تو اتار کر پھینک دیا جاتا ہے اور بری طرح پامال ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ لکھے ہوئے کپڑے کے استعمال میں کئی پہلوؤں سے بے ادبی اور بے احترامی ہوتی ہے، لہٰذا اس کے استعمال سے احتراز ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ چکی پیسنے کا واقعہ:
سوال: سیدنا حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ایک واقعہ کچھ عرصہ پیشتر روزنامہ اسلام میں شائع ہوا تھا اور خطیب حضرات بھی اسے خوب رنگ دے کر بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے وقت بخار اور تکلیف کی حالت میں چکی پیس رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ کیفیت دیکھی تو انھیں گرم دودھ اور کھجوریں پیش کیں اور آرام کا مشورہ دیا اور انھیں سلا کر خود ان کی جگہ رات بھر چکی پیستے رہے۔ تین دن مسلسل یہ عمل کرتے رہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن اخلاق اور غریب پروری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے، یہ واقعہ کس کتاب میں ہے؟
جواب: جو خطیب اور واعظ حضرات رنگ دے کر یہ واقعہ بیان کرتے ہیں ان سے پوچھیے کس کتاب میں ہے؟ ہمیں تو تلاش و جستجو کے باوجود کہیں کوئی سراغ نہیں ملا، جب تک حوالہ دستیاب نہ ہو کسی خطیب کے لیے اسے بیان کرنا جائز نہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ للعالمین تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت و شفقت کے بے شمار واقعات کتب حدیث میں مذکور ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا دائرہ مسلمانوں تک محدود نہ تھا بلکہ بلاامتیاز دوست و دشمن پوری انسانیت پر محیط تھا بلکہ انسانواں کے علاوہ حیوانوں کو بھی شامل تھا۔ چنانچہ احادیث میں بے زبان جانوروں کے واقعات مذکور ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور ان کی داد رسی کی، ان صحیح و ثابت اور بے غبار واقعات کو نظر انداز کرکے بے سر و پا واقعات بیان کرنا کون سی دینی خدمت ہے؟
تم میرے اوپر ہمیشہ کے لیے حرام ہو:
سوال: ایک شخص نے غصے میں بیوی سے کہا: ’’تم میرے اوپر ہمیشہ کے لیے حرام ہو۔‘‘ اس کا حکم کیا ہے؟
جواب: اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس جملے سے ایک طلاق کی نیت کی یا دو طلاقوں کی نیت کی تو ایک طلاق بائن ہوگی اور اگر تین طلاقوں کی نیت کی تو تین طلاقیں ہوں گی۔ اگر طلاق کے بجائے ایلاء کی نیت کی تو ایلاء ہوگا۔ اور اگر ظہار کی نیت کی تو ظہار ہوگا۔ اگر بلانیت یہ جملہ کہا تو ایک طلاق بائن ہوگی۔ وللتفصیل یلاحظ رد المختار ۳/۴۳۳۔
٭٭٭