کیا پاکستان کو ایک طویل جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے؟

ملک میں مغربی سرحدوں سے دراندازی، فتنۂ خوارج اور فتنۂ ہندوستان کے حملے اور شورش کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی سیکورٹی دستوں کی جانب سے بغاوت کو دبانے اور غیر ملکی مداخلت کو کچلنے کی کوششوں سے واضح ہوتا ہے کہ فتنہ اور فساد پھیلانے والوں کو اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا بھی ہے۔ پاک فوج کے مقابلے میں بھاری نقصانات اٹھانے کے باوجود خوارج کے گروہوں کی جانب سے گوریلا جنگ پر اصرار یہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردوں کو بلاانقطاع تزویراتی امداد حاصل ہے جو ظاہر ہے کہ افغانستان سے ہی مل رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے افغانستان میں گھس کر کسی بڑی جنگی کارروائی کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن تاحال ایسی کوئی مصدقہ اطلاع موجود نہیں جس کی بنیاد پر تصدیق یا تردید کی جا سکے کہ افغانستان میں موجود اہداف کو نشانہ بنانے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے یا نہیں؟ تاہم امریکی میڈیا میں پیش کی جانے والی بعض رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور کسی بھی وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بڑی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مندرجات میں خوارج کے حملوں کو حکومتِ پاکستان کی بیزاری اور جوابی کارروائی پر آمادگی کی وجہ ظاہر کیا گیا ہے۔

صورتِ حال خواہ کچھ بھی ہو لیکن موجودہ حالات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کو طالبان قیادت اور بھارت کی جانب سے مشترکہ طورپر مسلط کردہ جنگ کا سامنا ہے جس میں ”سرنڈر” یا ”ناکامی” کے کسی امکان کو حاشیۂ خیا ل میں بھی نہیں لایا جا سکتا۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اس امر کی تصدیق کر چکے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں داخل ہوکر کارروائی کی تیاری کی جا چکی تھی تاہم قطر نے اس معاملے کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے پر اصرار کیا جس کے بعد مذاکرات کا عمل شروع ہوا لیکن وہ بے نتیجہ رہا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان کی قیادت مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ دار ہے کیوں کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان مخالف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کی قابلِ اعتبار تصدیق سے انکاری ہے۔ یہ بات متعدد ذرائع سے سامنے آ رہی ہے کہ افغان طالبان کی قیادت موجودہ عالمی سفارت کاری کے اسالیب، جدید ریاستوں اور ان کے ادارہ جاتی طریقۂ کار اور بین الاقوامی تعلقات کے متعلق بنیادی علم سے ناواقف ہے۔ ان کمزوریوں کے علاوہ طالبان قیادت اعتقادی اور نظریاتی حوالوں سے بھی فقہی تعبیرات و تشریحات میں جمہور امت سے الگ دکھائی دیتی ہے۔ جمہوریت یا دیگر مروج انتظامی امور کو مطلقاً کفر قرار د ے کر امت کے ایک بڑے طبقے کی تکفیر نے جو اعتقادی اور نظریاتی فساد برپا کیا ہے، اس کے نتائج آج خودکش حملوں یعنی انتہا درجے کے اشتعال کی صورت میں دکھائی دے رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ افغان طالبان کی قیادت مجتہدفیہ مسائل میں کسی لچک کی قائل ہے اور نہ ہی وہ اعتقادی اور فقہی امور کے باب میں توسع کا ادراک رکھتی ہے۔ سونے پر سہاگا یہ کہ خود انحصاری یا اقتصادی خود کفالت کے لیے متبادل راستوں کی تلاش اور معاشی بہتری کے عنوان پر جو راستے اختیار کیے جا رہے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ غیر منطقی ہیں بلکہ وہ افغان طالبان کی جدید معیشت اوراقتصادی امور سے عدم واقفیت پر دلالت کرتے ہیں۔

ان اقدامات سے افغان عوام اورتاجروں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ بالادستی اور توسیع پسندانہ عزائم کے اظہار میں دل چسپی اور جذباتی نعروں میں اس پر غور کا تکلف بھی نہیں کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت جیسے ملک کی تائید و توصیف کی جا رہی ہے جو کہ علانیہ طورپر مشرکانہ تہذیب کے خطے پر بزور قوت مسلط کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ افغان طالبان کی دوستی کو کسی بھی طرح اعتقادی وابستگی کا عنوان نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک اقتصادی اور معاشی فوائد کا تعلق ہے تو یہ معاملات پاکستان جیسے جغرافیائی قرابت دار ہی کے ساتھ بہتر انداز میں پورے ہو سکتے تھے لیکن پاکستان کے متعلق افغان طالبان کے خیالات ”لویہ افغانستان” کے ناقابلِ تعبیر خواب کی صورت میں اب طشت ازبام ہو چکے ہیں لہٰذا قرینِ قیاس یہی ہے کہ بھارت کے ساتھ افغانستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات نہ ہی نظریاتی ہیں اور نہ ہی معاشی و اقتصادی۔ واقعاتی شواہد اور دستیاب معلومات بیان کرتی ہیں کہ یہ سب کچھ دفاعی اشتراک کی بنیاد پر انجام پا رہا ہے اور اسی کے نتائج فتنۂ خوارج اور فتنۂ ہندوستان کی سرگرمیوں میں شدت اور حملوں میں تیزی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی پراکسی یعنی فتنۂ خوارج اور فتنۂ ہندوستان کے مسلسل حملوں سے پاکستان پر ایک دباؤ کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے۔ اس دباؤ کو بھارتی جنگی ماہرین اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے پرامید ہو سکتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت دباؤ سے نکلنے کے لیے وہی راہ اختیار کر لے جوکہ بھارت چاہتا ہے اور جس کے نتائج ایک طویل گوریلا وار کی صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔

یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ بھارتی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے والی مودی حکومت کو افغان طالبان کی پگڑیوں اور جبوں سے کوئی عقیدت نہیں ہے لہٰذا وہ جہاد و شریعت کا نام لے کر اقتدار میں آنے والے اس طبقے کو مسلم امہ کے اجتماعی مفادات اور مسلم امہ کی سب سے بڑی عسکری قوت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کر سکتی ہے۔ بھارت افغان طالبان کی لسانی عصبیت، علاقائی برتری کے زعم اور قومی تفاخر کو پاکستان کے خلاف برانگیختہ کر رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جوکہ افغانستان اور بھارت کے بڑھتے ہوئے عسکری اتحاد کی توسیع واستحکام کا ذریعہ بنے۔ پاکستان میں اس وقت داخلی استحکام کے لیے سیاسی تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔ فیلڈ مارشل جنر ل عاصم منیر جوکہ مسلم ممالک کے درمیان دفاعی اتحاد اور عسکری اشتراک کے لیے کوشاں ہیں، جلد ہی باضابطہ طورپر تمام مسلح افواج کی سربراہی کا پرچم اٹھانے والے ہیں۔ بظاہر بھارت اور افغان طالبان پاکستان کو ایک طویل جنگ میں گھسیٹنے پر متفق ہیں لیکن توقع رکھی جانی چاہیے کہ پاکستان دشمن کے بچھائے گئے جال میں نہیں پھنسے گا اور افغانستان اور بھارت کے گٹھ جوڑ کو غیر موثر بنانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی پر مبنی تدابیر کرے گا۔افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ پاکستان کے لیے ایک بڑا سکیورٹی چیلنج ہے،اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔