بھارتی سیاست پاکستان کے عزم کا مقابلہ نہیں کرسکتی

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں پاکستان کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی اور سندھ کو بھارت کاحصہ بنالینے کی بھارتی وزیر دفاع کی خواہش پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس قسم کی گفتگو مسائل کے حل سے فرا ر اور خطرنا ک ذہنیت کی نشانی ہے جو علاقائی امن کے لیے خطرناک ہے ۔ بھارتی وزیر دفاع کی متنازع گفتگو کے ساتھ ہی بھارتی آرمی کے ایک اعلیٰ سطحی افسر کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہمہ جہت جنگ چھیڑنے کا عندیہ بھی دیا گیاہے جس میں سائبر اٹیک اور الیکٹرونک وار فیئر شامل ہیں۔ بھارتی افواج ان دنوں پاکستانی سرحدوں کے بالکل نزدیک ہی جنگی مشقوں میں مصروف ہیں۔اطلاعات کے مطابق یہ مشقیں دفاع سے زیادہ جارحیت پر مشتمل عزائم کی نشان دہی کرتی ہیں۔ مشرقی سرحدوں پر جاری فوجی مشقوں کے ساتھ ساتھ بھارت نے اپنے گماشتوں کی مدد سے پاکستان کی مغربی سرحد پر ایک حقیقی جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔گمراہ عناصر دین اور جہاد کا نام لے کر عالم اسلام کی سب سے مستحکم عسکری طاقت کو کمزور کرنے کے لیے گوریلا جنگ کا حربہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ پشاور میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر ہونے والا خود کش حملہ اسی جنگ کا حصہ ہے جو کہ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان سے لڑ رہا ہے اور جس میں فتنہ ٔ خوارج کے گمراہ افراد بھارت کے لیے کرائے کے سپاہیوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔

بھارتی سیاست کا پاکستان دشمنی پر مشتمل پہلو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ ایک وسیع تاریخی پس منظر رکھتاہے ۔ بھارت کا ڈھکے چھپے لفظوں میں اب بھی یہ دعویٰ ہے کہ وہ تقسیم ِ ہند کو قبول نہیں کرتا ۔”اکھنڈ بھارت ”کے قیام کا خواب نہ صرف آر ایس ایس کا منصوبہ ہے بلکہ اب یہ بھارت کی” کرم اور دھرم” کے مذہبی لبادے میں مقبول اور بالادستی کے عزائم پر مشتمل سیاست کا بنیادی محور ہے ۔بھارت کی وطنی سیاست کے خمیر ہی میں شاید پاکستان دشمنی کی آڑ میں مسلم دشمنی کا زہر گھول دیا گیا ہے اسی لیے پاکستان کو آنکھیں دکھانا، دھمکیاں دینا اور بدزبانی کرنا سیاسی مقبولیت کے لیے ضروری خیال کیا جاتاہے ۔ بھارت کی موجودہ قیادت جو کہ انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے سیاسی بازو کا حصہ ہے ، پاکستان دشمنی میں ماضی کی حدیں پار کرچکی ہے اور اب تک شاید وہ پاکستان پر درجنوں مرتبہ حملہ آور ہوچکی ہوتی تاہم اسلامیانِ پاکستان پر یہ ربِ کریم کی خصوصی عنایت اور فضل و کرم ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج ہمہ وقت ملک کی سلامتی ، تحفظ اور دفاع کے لیے کمربستہ ،چوکنا اور ہوشیار ہیں۔چند ماہ قبل معرکہ ٔ حق میں پاکستان کی شان دار فتح کے بعد افواجِ پاکستان کا حوصلہ آسمان کی بلندیوں کو چھور ہا ہے جبکہ بھارتی قیادت کو اپنی افواج کو فعال کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا پڑ رہاہے۔ بھارتی افواج کی حالیہ جنگی مشقیں اسی سلسلے کا حصہ ہیں اور انہی مشقوں کے بل پر بھارتی وزیر دفاع کویہ نادر خیال سوجھاہے کہ بھارت جارحیت کے ذریعے پاکستان کی جغرافیائی حدود میں ردوبدل کرتے ہوئے سندھ کو اپنی سرحدوں میں شامل کرسکتاہے ۔ظاہر ہے کہ اس قسم کی بیان بازی صرف سستی مقبولیت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے تاکہ عوام کی توجہ حکومت کی ناکامیوں سے ہٹا کر نت نئے موضوعات کی جانب منقسم کروائی جاسکے ۔ ایسے بیانات کو نفسیاتی ،ابلاغی جنگ اور پروپیگنڈ ہ وارکا حصہ بھی قرار دیا جاسکتاہے جو کہ بھارت نے اپنے زرخرید ایجنٹوں کی مدد سے پاکستان کے خلاف زور وشور سے چھیڑ رکھی ہے ۔

علاوہ ازیں اس قسم کے بیانا ت کا ایک مقصد پاکستان کی مغربی سرحدوں سے حملہ آور فتنہ ٔ خوارج اور ان کی پشت پناہ طالبان قیادت کو حوصلہ فراہم کرنا بھی ہوسکتاہے تا کہ وہ ڈالروں کی امداد کے علاوہ بھارت کے بلند بانگ دعووں اور گیدڑ بھبکیوں سے بھی حوصلہ کشید کریں اور پاکستان پر اپنے حملے تسلسل کے ساتھ جاری رکھیں ۔ بھارتی ایما پر پاکستان کی مغربی سرحدوں پر لڑی جانے والی اس جنگ میں جو کردار استعمال ہورہے ہیں وہ پاکستان اور افواجِ پاکستا ن کے ساتھ شدید نوعیت کا بغض ، عداوت اور کینہ رکھتے ہیں۔ ان کی نسلی ،لسانی اور علاقائی منافرت نے ا نھیں سوچنے ،سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کررکھاہے اور وہ پیسے اور طاقت کے زعم کا شکار ہوکر افغانستان کی آزادی کے لیے دی جانے والی پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی قربانیوں کو تلف کرنے پر مصر ہیں۔ طالبان رہنما اسی سیاسی غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں جس نے درجنوں اسلامی ریاستوں اور مسلم خطوں کو تباہی سے دوچار کیاہے ۔فتنہ و فساد پھیلانے والے گروہوں کی سرپرستی ایک خطرناک تزویراتی غلطی ہے جس کا ردعمل طالبان قیادت ہی نہیں بلکہ افغا ن عوام کو بھی مدتوں بھگتنا ہوگا۔

پاکستان اور یورپی یونین کی تنظیم نے ایک مشترکہ بیان میں انہی خطرات کی نشان دہی کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ افغانستان اس وقت دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ بن چکاہے ۔ افیون کی کاشت، منشیات کی تیاری اور اس کے ساتھ ہی خود کش حملہ آوروںکی فیکٹریوں کی صورت میں افغان سرزمین سے تمام پڑوسی ممالک کو سنگین خطرات لاحق ہیں ۔بھارت جو کہ پاکستان سے دوبدو پنجہ آزمائی میں ناکام ہوچکاہے اب افغانستان کی طالبان انتظامیہ کی سیاسی غلطیوں کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتاہے ۔اس وقت افغان عوام کے حقیقی نمائندوں کو فہم و فراست سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کی یہ ہر گز خواہش نہیں کہ افغان عوام دوبارہ خانہ جنگی کی تباہی دیکھیں جو ماضی کے مجاہدین کے ہاتھوں ان پر عذاب کی صورت مسلط ہوئی تھی۔ پاکستان نے اپنے عوام کے تحفظ کے لیے صرف سرحدوں کو بند کیا ہے اور درانداز ی کے مسئلے سے نمٹ رہاہے ۔ تاہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش نے اس وقت افغانستان میں معاشی بحران کی سی صورت پیدا کردی ہے ۔ آخر افغان عوام کب تک ان نئے مسائل کا سامنا کر سکیں گے ؟طالبان قیادت کے لیے بہتر ی اسی میں ہے کہ اپنی بے جا ضد کو ترک کردے اورعلاقائی امن اور سلامتی پر توجہ دی جائے۔ نہ خود نقصان اٹھایا جائے اور نہ ہی دوسروں کا نقصان سوچا جائے۔بھارت اپنی سیاست کے لیے افغانوں کو استعمال کررہاہے ۔ابلاغی جنگ میں افواج پاکستان کے خلاف گھٹیا ترین مہم چلائی جارہی ہے لیکن بفضلہ تعالیٰ پاکستان کے تمام طبقات اپنی افواج کے ساتھ کھڑے رہیں گے ۔ ملک کے مؤقر تعلیمی ادارے جامعة الرشید میں منعقدہ اجتماع میںبھی دنیا کو یہی پیغام دیا گیاہے ۔بھارتی سیاست،اس کی پراکسی وار اور فتنہ ٔ خوارج پاکستان کے عزم کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔