مملکتِ خداداد پاکستان کی آزادی و سربلندی کے پرچم کو جو ہاتھ نوچنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں، وہ بھارت، افغان گٹھ جوڑ کی شکل میں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ خودکش حملوں اور فتنۂ خوارج میں افغان شہریوں اور طالبان اہل کاروں کی بڑھتی ہوئی شمولیت اور دراندازی کی نت نئی کوششیں ان ناپاک اور خون آشام عزائم کو بے نقاب کرتی ہیں جو کوہِ ہندوکش کے دامن میں شریعت کے بزعمِ خود علم برداروں اور مشرکانہ تہذیب کو اس خطے پر بزورِ قوت نافذ کرنے والے برہمن سامراج کے درمیان قدرِ مشترک کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ بھارت میں ہونے والے بم دھماکوں، بہار میں ہندوتوا کی علم بردار جماعتوں کی جیت، بھارتی افواج کی بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں اور پاکستان مخالف، مسلم دشمن برہمن حلقوں میں پھیلتا ہوا اضطراب اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والی قیادت پاکستان پر کوئی بھی اوچھا وار کرنے کے لیے پر تولے بیٹھی ہے۔
ان حالات میں پاک فوج کے سپہ سالار فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے قوم کے نام ایک پیغام میں کہا ہے کہ اگر بھارت نے کوئی حماقت کی تو اسے دس مئی کو ہونے والے معرکۂ حق کی مانند بلکہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔ پاک فوج کے سپہ سالار کا کہنا تھا کہ اللہ رب العزت کی مدد ان شاء اللہ پاکستان کے ساتھ ہے اور وہی ہے جو مٹھی بھر مٹی سے دشمن کے عزائم خا ک میں ملا دیتا ہے جیسا کہ معرکۂ حق میں اس نے پاک افواج کی مدد کی اور پاکستان کے میزائلوں نے بھارت کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا۔ دفاعِ وطن کا یہ غیر متزلزل عزم دراصل پوری قوم کے احساسات کا آئینہ دار ہے اور یہ اس فریضے کی انجام دہی کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے ادراک کی نشان دہی کرتا ہے، موجودہ حالات میں جن کی ادائیگی قوم کے ہر فرد کو اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کرنی چاہئیں۔
یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ مملکتِ خداداد پاکستان محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں جسے ایک قومی وطن یا لسانی ریاست کا عنوان دے دیا گیا ہو اور جس کے ساتھ وفادار ی کا اظہار وطنیت کے مغربی نظریے کی تصدیق ہو بلکہ پاکستان ایک ایسے دور میں قرطاسِ ہستی پر ابھرا جب مسلم امہ سقوطِ خلافتِ عثمانیہ کے بعد شکست خوردہ تھی اور کروڑوں اسلامیانِ ہند برہمن سامراج کی نظریاتی، ثقافتی، تہذیبی، سیاسی اور عسکری یلغار کی زد میں تھے۔ ان حالات میں پاکستان کا وجود دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک سہارا بن کر نمودار ہوا تھا۔ اس ریاست کی بنیادیں کلمۂ طیبہ پر رکھی گئیں۔ اس کے آئین میں یہ طے کر دیا گیا کہ قرآن وسنت کے خلاف یہاں قانون سازی نہ ہو سکے گی۔ یہ تمام امور مسلمانوں کی اجتماعی و معاشرتی زندگی کے لیے نہایت اہم تھے۔ پاکستان کی اس اساسی و نظریاتی حیثیت کا تقاضا یہی تھا کہ دینی طبقات، مذہبی حلقے اور علماء کرام اس ریاست کے ساتھ قدم بقدم چل کر اس کی نظریاتی اصلاح اور علمی قوانین کی درستی میں عالمانہ، داعیانہ اور قائدانہ کردار ادا کرتے۔ افسو س یہ ہے کہ پاکستان کو جس نظریاتی فتنے کا سامنا ہے، وہ دین و مذہب ہی کے نام پر مسلمانوں کی اس عظیم ریاست کی تخریب، تجزئی اور تحلیل کرنے کے درپے ہے۔ طالبان رجیم بھارت کی پراکسی کا کردار ادا کرتے ہوئے فتنۂ خوارج اور فتنہ ہندوستان کی بھرپور معاونت کر رہی ہے۔ ایک طرف ان کا دعویٰ ہے کہ وہ نفاذِ شریعت کے سوا کسی قانون کو قابلِ ترجیح نہیں سمجھتے لیکن مغربی ماڈ ل کے مطابق معاشی نظام کے تحت امریکا اور دیگر ممالک سے انھیں ڈالروں کی صورت امداد مل رہی ہے اور مغرب کے بنائے ہوئے ریاستی نظام کے مطابق وہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ تجارتی اور دفاعی معاہدے کرنے کی کوشش میں ہیں جن میں سرفہرست بھارت ہے جو ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے چوبیس کروڑ مسلمان اس کی جارحیت کے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسلامی شریعت کے قواعدِ اصول کے مطابق مسلمانوں کے لیے نقصان اٹھانا یا نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ شریعت کے بنیادی مقاصد میں دین، انسانی جان و مال اور عزت وآبرو کا تحفظ اور ضرر، فساد اور شر کو دور کرنا شامل ہے لیکن فتنۂ خوارج اور فتنۂ ہندوستان کی سرگرمیوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شر اور فساد کو عام کر دیا ہے۔ بھتہ خوری، لوٹ مار، راستوں کی بندش، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کو یہ گروہ جہاد کے نام پر استعمال کر کے مسلمانوں کے اجتماعی نظم و نسق کو تباہ اور مسلمانوں کے ایک بڑے ملک کو تباہ و بردباد کرنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں نے جو انکشافات کیے ہیں وہ بھی واضح کرتے ہیں کہ یہ دہشت گرد گروہ دین و شریعت کی درست تعبیرات، قرآن سنت کی تشریحات اور احکام کے مقاصد سے قطعی ناواقف ہیں اور تہذیب و تمدن اور معاشرتی رسوم و رواج کے متعلق کچھ بھی جان کاری نہیں رکھتے۔ عام مسلمانوں پر حملے کر کے یہ گروہ پاکستان کے اندر شر و فساد کا سرچشمہ بن چکے ہیں اور ان کے چلن، عادت، رویے اور روایات کو دیکھتے ہوئے اہلِ وطن کو ان کے متعلق طے کر لینا چاہیے کہ ان کے سرنڈر یا خاتمے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو سکتا۔ ان کی سب بڑی ترجیح ”لویہ افغانستان” ہے جوکہ دراصل اکھنڈ بھارت کے ناپاک منصوبے ہی کا ایک حصہ ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب مسلم ریاستوں کو خود انہی کے وجود کے اندر پیدا ہونے والے نیم مذہبی و خود ساختہ مزاحمتی گروہوں کے ہاتھوں انارکی، تشدد اور انتشار جیسے مسائل کا سامنا ہے، اسلامیانِ پاکستان کو اپنے ملک کا وقار بحال کرنے، اپنی ریاست کو زیادہ محفوظ بنانے اور اپنے لوگوں کی اعلیٰ پیمانے پر خدمت انجام دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ریاستِ پاکستان میں اب نئی سیاسی و انتظامی روایات کا آغاز ہو چکا ہے۔ داخلی استحکام کے ساتھ ملک کے دفاع کا غیر متزلزل عزم دراصل ایک نئی قومی بیداری کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے افغان سرحد کے ساتھ متصل خطے میں دہشت گردوں کے گرم تعاقب کی موثر پالیسی اختیار کی ہوئی ہے اور افغانستان کی طالبان انتظامیہ کی جانب سے دہشت گردوں کی پشت پناہی بند کرنے سے مسلسل انکار اور الٹا پاکستان کو توڑنے اور جلانے کے عزائم کے اظہار نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی اور کشیدگی کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ اس طرح پاکستان کو مشرقی اور مغربی سرحدوں سے بیک وقت خطرات کا سامنا ہے۔ ایسے موقع پر قوم کا اتحاد اور اپنی مسلح افواج کی پشت پر کھڑا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

