بیٹیوں کو اعتماد اور عزت دیں

شہر کی سڑکوں پر آج کل ایک نیا منظر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان لڑکیاں، طالبات، اور خواتین رنگ برنگی اسکوٹیاں چلاتی دکھائی دیتی ہیں۔ کوئی کالج یا یونیورسٹی جا رہی ہے، کوئی اپنی بیمار والدہ کو اسپتال لے جا رہی ہے، کوئی کسی کو ڈراپ کرنے یا روزمرہ کی خریداری کے لیے نکلی ہے اور کوئی اپنی جاب کے مقام پر جا رہی ہے۔

اس امر سے قطع نظر کہ خواتین بالخصوص بچیوں کو اس طرح سڑکوں پر اس طرح ہمت آزمائی کرنی چاہیے یا نہیں مگر اس کے پیچھے اکثر ایک مجبوری چھپی ہوتی ہے کیونکہ ان گھروں میں یا تو مرد موجود نہیں ہوتے یا روزگار کی مصروفیات کے باعث وقت نہیں نکال پاتے۔ مہنگائی نے مردوں کو کولہو کا بیل بنا دیا ہے۔ سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا بھی لوگوں کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس گرانی کے دور میں بچت کا تو تصور ہی محال ہو گیا ہے۔ یہاں روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کو کم کرنے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے ذمہ دار حکمران اپنی حکومتوں کو شہرتِ عام دینے کے لیے فضول منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ اپنے اقتدار کو بقائے دوام دینے کی خاطر آئین میں ترامیم پر ترامیم کرتے جا رہے ہیں مگر عوام کے لیے انہوں نے کبھی کسی ترمیم میں کوئی ایک شِق بھی رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کاش کوئی ایسی ترمیم بھی ہو جائے جس میں عوام کی تعلیم اور صحت کو حکومتی ذمہ داری سمجھا جائے۔ کوئی ایک شق اس طرح کی بھی ترمیم میں شامل ہو جائے کہ کوئی پڑھا لکھا اور ہنرمند بے روزگار نہیں رہے گا۔ سب کو اپنی چھت ملے گی۔ سرکاری ملازمین سے دی گئی مراعات چھین کر عوامی نمائندوں اور اشرافیہ پر نوازشات کی بارش نہیں کی جائے گی۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے حکمران کیا جانیں کہ مزدوروں اور دیہاڑی داروں کے حالات کتنے تلخ ہیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ اسکوٹیوں پر سفر کرتی یہ لڑکیاں کسی تماشا یا شوق کی خاطر نہیں بلکہ ضرورت اور ذمہ داری کے احساس سے گھر سے نکلتی ہیں۔ ان کا ہمت اور خود اعتمادی کے ساتھ سڑکوں پر نکلنا دراصل ہمارے معاشرتی رویوں کی آزمائش ہے۔

بدقسمتی سے سڑکوں پر موجود کئی مرد حضرات ان خواتین کو دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھتے۔ کوئی تیز رفتاری دکھاتا ہے، کوئی ہارن بجاتا ہے اور کوئی ان کے ساتھ ریس لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ حرکات نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ خطرناک بھی ہیں۔ یہ بچیاں خوفزدہ ہو کر اپنا توازن کھو سکتی ہیں۔ یہ کسی حادثے کاشکار ہو سکتی ہیں۔ ایک لمحے کی بدتمیزی یا لاپروائی ایک قیمتی جان کو نقصان پہنچا سکتی ہے یا بعض اوقات ہمیشہ کے لیے کسی کو معذور کر کے اس کی زندگی بدل سکتی ہے۔ یہ مسئلہ صرف ٹریفک اور اخلاقیات تک محدود نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی سماجی رویے کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ جب سڑک پر موجود مرد حضرات خواتین کو کمزور یا غیر سنجیدہ سمجھ کر اپنے رویے میں جارحیت دکھاتے ہیں تو دراصل وہ پورے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو مجروح کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ سڑکیں سب کے لیے برابر ہیں۔ ہر شہری، خواہ مرد ہو یا عورت، محفوظ اور پرسکون سفر کا حق رکھتا ہے۔ خواتین کے ساتھ پیش آنے والے یہ واقعات ان کے حوصلے کو کمزور کرتے ہیں اور انہیں اگلے سفر سے پہلے کئی بار سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ والدین، بہن بھائی اور خاندان بھی مسلسل پریشانی کا شکار رہتے ہیں کہ کہیں ان کی بچی کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اس صورتحال کا حل صرف یہی ہے کہ ہم اجتماعی شعور پیدا کریں، ایک دوسرے کا احترام سکھائیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ایسے رویوں کے خلاف سخت کارروائی کریں تاکہ سڑکوں پر نظم، سلامتی اور باہمی احترام قائم رہے۔

یہ بیٹیاں، بہنیں، اور مائیں ہمارے معاشرے کا وقار ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ صرف اخلاقی نہیں بلکہ دینی فریضہ بھی ہے۔ مرد ڈرائیور حضرات کو چاہیے کہ ان خواتین کو سڑک پر محفوظ راستہ دیں۔ اوور ٹیک کرتے وقت محتاط رہیں۔ انہیں ڈرانے یا خوف زدہ کرنے والی حرکتوں سے گریز کریں۔ ان کے لیے جگہ چھوڑیں تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ سفر کر سکیں۔ یہ رویہ نہ صرف حادثات سے بچا سکتا ہے بلکہ سوسائٹی میں تحفظ اور اعتماد کا ماحول بھی پیدا کرتا ہے۔ سڑک پر چلتی ہر خاتون کسی کی ماں، بہن یا بیٹی ہے۔ اگر ہم آج ان خواتین کو عزت دیں گے تو کل ہماری بیٹیوں کو بھی یہی عزت ملے گی۔ خواتین کے لیے محفوظ ماحول پیدا کرنا صرف قانون یا حکومت کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر شہری کا اخلاقی اور انسانی فرض ہے۔ بیٹیوں کو اعتماد دیں، انہیں عزت دیں، انہیں یہ احساس دلائیں کہ سڑک پر ان کے لیے بھی اتنی ہی جگہ اور احترام ہے جتنا مردوں کے لیے۔ یہی رویہ ہمارے ایمان، اخلاق اور تہذیب کا مظہر ہے۔ جس معاشرے میں بیٹیوں کو تحفظ اور عزت ملتی ہے، وہاں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔