سڈنی شیلڈن انگریزی زبان کا مشہور پاپولر ناول نگار ہے، اس کے تھرلنگ ناول دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوئے، وہ بیسٹ سیلر رائٹر رہا۔ چند سال پہلے اپنی موت سے قبل سڈنی نے اپنی بائیوگرافی بھی ایک ناول کے انداز میں لکھی۔ اس کتاب میں انکشاف کیا کہ 18 سال کی عمر میں سڈنی شیلڈن نے خودکشی کی کوشش کی مگراتفاق سے عین وقت پر والد گھر آگیا اور اس نے پھر اپنی باتوں سے نوجوان سڈنی کو قائل کرلیا کہ اپنی زندگی کی کتاب بند کرنے کے بجائے اگلے برسوں میں آنے والے نئے چیپٹرز (ابواب) دیکھ لے۔ خوش قسمتی سے نوجوان سڈنی نے ایسا کیا اور پھر زندگی کی 65سے 70 مزید بہاریں دیکھ کر ہی رخصت ہوا۔
زندگی ایک لفٹ ہے، اس سے باہر نہ نکلیں
سڈنی شیلڈن کی زندگی ڈرامائی واقعات سے معمور ہے۔ اپنی پوری زندگی کا نچوڑ سڈنی نے دو سطروں میں یوں نکالا: ”زندگی ایک لفٹ کی طرح ہے، کبھی یہ نیچے آتی ہے تو کبھی اوپر جاتی ہے۔ جب یہ ٹاپ فلور پر ہو تو نیچے بھی آئے گی اور اگر نیچے ہو تو یقین رکھیں کہ زندگی کی لفٹ ٹاپ پر بھی لے جائے گی۔ کامیابی کی کنجی یہ ہے کہ لفٹ سے باہر نہیں نکلنا۔ لفٹ میں رہیں گے تو آج کی ناکامی کل کی کامیابی میں بدل جائے گی”۔سڈنی شیلڈن کی زندگی کے ان پہلوئوں پر برسوں پہلے میں نے کالم لکھا تھا، لفٹ سے باہر مت آئیں۔ یہ کالم میری پہلی کتاب زنگار میں بھی شامل ہے۔ جب یہ کالم اخبار میں چھپا تو مجھے کئی لوگوں کے میسجز اور ای میلز آئے (تب لوگ ای میل بھی بھیجا کرتے تھے) کہ ہم مایوس ہوچکے تھے، اس کالم نے حوصلہ دیا۔ پشاور سے ایک نوجوان نے میسج کیا کہ میں خودکشی کا فیصلہ کرچکا تھا، اس کالم نے حوصلہ دیا اور اب زندگی سے لڑنے کا ارادہ کرلیا۔آج جب وہ کالم لکھے مجھے 10، 15 برس گزر چکے ہیں، میں سوچتا ہوں کہ اس طرح کی چیزوں کی جتنی ضرورت اب ہے، پہلے نہیں تھی۔ پچھلے چند برسوں میں مینٹل ہیلتھ، ڈپریشن اور خودکشی کے رجحانات وغیرہ پر بہت کچھ پڑھنے کا موقع ملا۔ اب مجھے لگتا ہے کہ زندگی اتنی پیچیدہ ہوچکی ہے کہ جدید دور کے انسان کے تضادات، تنہائی اور داخلی دنیا ایسی پروحشت اور تکلیف دہ ہے کہ اسے مستقل بنیادوں پر پروفیشنل مدد کی ضرورت ہے۔ اس تحریر کا فوری محرک ایس پی اسلام آباد عدیل اکبر کی خودکشی کا افسوسناک سانحہ بنا ہے۔
پولیس افسران کی خودکشی کے واقعات، مختصر ڈیٹا
پاکستان میں پچھلے چند برسوں کے دوران کئی پولیس اور انتظامی افسران خودکشی کے افسوسناک انجام سے دوچار ہوئے۔ 2011 میں ننکانہ صاحب میں ڈی پی او شہزاد اکبر نے سرکاری پسٹل سے خودکشی کی۔2016 میں جعفر آباد بلوچستان میں ایس ایس پی / ڈی پی اوجہانزیب کاکڑ کی دفتر میں گولی لگنے سے موت ہوئی، ابتدا میں قتل کا خدشہ ظاہر کیا گیا، مگر تفصیلی پولیس تفتیش میں یہ خودکشی ہی قرار پائی۔2018 میں ڈپٹی کمشنر سہیل احمد ٹیپو کی سرکاری رہائش گاہ سے لاش برآمد ہوئی، تفتیش سے پتہ چلا کہ خودکشی کی گئی۔اسی سال لاڑکانہ کے ڈی ایس پی راجہ اظہر محمود نے پولیس لائنز میں خودکشی کرلی۔2020 میں پنڈی کے ایس پی ابرار نیکوکارہ کی خودکشی کی خبر آئی، ان کے ہاتھ سے لکھا گیا ایک تحریری نوٹ بھی ملا تھا۔رواں سال رحیم یار خان میں ایک ڈی ایس پی سیف اللہ کورائی کی مبینہ خودکشی کی خبر آئی۔ اب اکتوبر کے ایک افسوسناک دن میں ایس پی اسلام آباد عدیل اکبر کی موت کی خبر ہم سب پڑھ اور سن چکے ہیں۔
ہر بدقسمتی منفرد اور تنہا ہوتی ہے
روسی ناول نگار لیو ٹالسٹائی کے شہرہ آفاق ناول اینا کرینینا کی پہلی سطر بڑی مشہور ہے اور اسے بہت جگہ پر کوٹ کیا جاتا ہے، ‘تمام خوش خاندان ایک جیسے ہوتے ہیں، مگر ہر بدقسمت یا ناخوش خاندان اپنی بدقسمتی میں منفرد ہوتا ہے’۔اس جملے کے دو تین قسم کے ترجمے کیے جاتے ہیں، جیسے ادبی اور کلاسیکی رنگ میں ترجمہ کیا جائے تو کچھ یوں بنتا ہے: ‘ہر خوشحال گھرانہ ایک ہی رنگ میں رنگا ہوتا ہے، لیکن ہر غمزدہ گھر اپنی اذیت میں نرالا ہوتا ہے’۔جدید صحافتی انداز میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں: ‘سارے خوش گھرانے ایک جیسے نظر آتے ہیں، لیکن ہر ٹوٹا گھرانہ اپنی الگ کہانی رکھتا ہے’۔درحقیقت یہ صرف ایک بڑے ناول کا چونکا دینے والا آغاز نہیں بلکہ یہ جملہ ادبی ناقدین کے مطابق ٹالسٹائی کے فلسفہ زندگی، اخلاقیات اور انسانی رشتوں کے نقطہ نظر کا خلاصہ ہے اور اس ضخیم ناول کا نچوڑ بھی۔ٹالسٹائی کے اس جملے اور ناول پر بہت سی طویل فلسفیانہ بحثیں کی گئی اور کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو دقیق فلسفیانہ بحثوں سے بچاتے ہوئے صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ٹالسٹائی کے مطابق خوشی اور سکون ایک خاص قسم کی ہم آہنگ توازن سے حاصل ہوتی ہے۔ تمام خوش گھرانے اس توازن کو قائم رکھتے ہیں، اس لیے وہ سب ایک سے نظر آتے ہیں۔ تاہم جب یہ توازن ٹوٹتا ہے، خواہ وہ محبت ہو، وفاداری، سماجی تعلق یا کسی اور سمت میں تو پھر وہ بدقسمت خاندان اپنی انفرادیت کے ساتھ ہی ٹوٹتا ہے۔ اس لیے بدقسمت گھرانے کی کہانی ایک سی نہیں ہوتی ہے۔یہ وہ نکتہ ہے جس پر ٹالسٹائی کے بعد بھی کئی بڑے ادیبوں نے قلم اٹھایا۔ بات وہی ایک ہی ہے کہ انسانی زندگی کا المیہ ہمیشہ ذاتی، منفرد اور غیر متوقع ہوتا ہے۔ اس لیے اس پر کوئی لگا بندھا فارمولا اپلائی نہیں کرنا چاہیے۔ یہ وہ بات ہے جو ہم میڈیا والوں کو، سوشل میڈیا پر لکھنے یا بات کرنے والوں کو خودکشی کے حوالے سے لازمی یاد رکھنی چاہیے۔( جاری ہے)

