خیبر پختونخوا کے نومنتخب وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی بڑے غصے میں ہیں۔ انہیں غصہ اس بات پر ہے کہ ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوتے ہوئے بھی انہیں مقتدر حلقوں سے عزت نہیں مل رہی۔ ان کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اس معاملے کو لے کر وہ ڈپریشن کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ گلہ نہیں کر رہے بلکہ باقاعدہ غصہ کر رہے ہیں کہ عدالت سے اجازت ملنے کے باوجود ان کی ملاقات بانی پی ٹی آئی سے نہیں کروائی جا رہی۔ گزشتہ روز چارسدہ میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ملاقات نہ ہونے پر میں عوام کے پاس آیا ہوں۔ جس نے قوم پر ظلم و جبر کیا ہے اس کو عوام کے کٹہرے میں لائیں گے۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ تیاری کر لیں، ہم بانی چیئرمین کو جیل سے نکالیں گے۔
سہیل آفریدی جب سے وزیرِ اعلیٰ بنے ہیں مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ان کی ملاقات بانی پی ٹی آئی سے ہو جائے مگر وہ ابھی تک اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکے، یہ بات وہ خود بھی بخوبی جانتے ہیں۔ بیرسٹر سیف انہی کی حکومت کے نمائندہ ہیں۔ انہیں ملاقات سے آج تک انکار نہیں ہوا۔ سہیل آفریدی ان کے ذریعے پیغام رسانی کر سکتے ہیں لیکن مسئلہ پیغام رسانی کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ اپنی حیثیت کو منوانے کا ہے جس میں فی الحال وہ کامیاب نہیں ہو سکے لیکن حسن ایوب خان کے مطابق وہ کورٹ آرڈر کے بغیر اڈیالہ جیل بانی سے ملاقات کرنے گئے تھے۔ اس کی وجہ تو سہیل آفریدی خود ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔
دوسری طرف سابق اسپیکر قومی اسمبلی و رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے 200فیصد امکانات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی کے کیسز میرٹ پر چلیں تو ایک دن بھی جیل میں نہیں رہیں گے۔ اسی نشست میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی بنی گالہ منتقلی پر پارٹی میں مشاورت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کہیں منتقلی کی درخواست دینے کی ضرورت نہیں، یہ حکومت کی صوابدید ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے اس وقت موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے نہیں ہیں۔ اسد قیصر نے کہا کہ نومبر میں احتجاج سے متعلق کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔ بانی نے تحریک کی ذمہ داری محمود اچکزئی کو دی ہے۔ ہم نے جلسوں کے ذریعے عوام کو متحرک کرنا ہے۔
اسد قیصر کے اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں تضاد نظر آتا ہے۔ ایک طرف وہ بانی پی ٹی آئی کی بنی گالہ منتقلی پر رضامند نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اس بات کی تردید بھی کر رہے ہیں کہ ان کے موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے نہیں ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ رابطوں کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ ہو جائے جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھنے پر تیار نہ ہو۔ سمجھنے والے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بیک ڈور چینلز سے رابطوں کے بغیر ایسی بیلیں منڈھے نہیں چڑھا کرتیں۔ وہ میرٹ پر کیسز کی بات کر رہے ہیں جبکہ خان کے خلاف فیصلوں میں ان کے وکلاء بھی برابر کے شریک ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف ثبوت اتنے پکے ہوں کہ وکلاء کے پاس انہیں جھٹلانا ممکن نہ ہو۔ نومبر میں احتجاج کے زیرِ غور نہ ہونے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سہیل آفریدی ابھی اس امتحان کے لیے تیاری نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر اس بات کو محمود اچکزئی کی تحریک کی قیادت کی ذمہ داری سے ملا کر دیکھا جائے تو یہ مقتدرہ کے لیے خیرسگالی کے جذبات کا پیغام بھی ہو سکتا ہے۔
تیسری طرف رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما شیر افضل مروت نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ عمران خان، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل تقریباً طے پا چکی تھی جس کے تحت عمران خان کی رہائی بھی متوقع تھی تاہم رینجرز کے واقعے نے سارا معاملہ ختم کر دیا۔ شیر افضل مروت کے مطابق 3نومبر کو مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے لیے ایک 4 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی میں علی امین گنڈاپور، بیرسٹر گوہر علی خان، محسن نقوی اور رانا ثناء اللہ شامل تھے جب کہ بعد میں وہ خود بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے بتایا کہ مذاکرات کے دوران کئی امور پر اتفاق رائے ہو چکا تھا جن میں عمران خان کی رہائی بھی شامل تھی۔ اس سلسلے میں وزیرِ داخلہ نے اپنا جہاز بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف کے لیے فراہم کیا تاکہ وہ اٹک جیل جا کر عمران خان کو مذاکرات کی پیشرفت سے آگاہ کر سکیں۔ شیر افضل مروت کے بقول، 25نومبر کو بیرسٹر گوہر اٹک جیل پہنچے جہاں عمران خان کا ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کیا جانا تھا۔ اس پیغام میں عمران خان نے اپنے کارکنوں کو ہدایت دینی تھی کہ وہ سنگجانی میں ان کی رہائی تک قیام کریں۔ ان کے مطابق بیرسٹر گوہر سے ویڈیو بنانے کے لیے موبائل مانگا گیا تو انہوں نے کہا موبائل جیل میں نہیں لایا کیونکہ اجازت نہیں ہے۔ جیل کے ایک اہلکار نے کہا یہ میرا موبائل ہے، اس پر ویڈیو بنالیں لیکن عمران خان نے جیل اہلکار کے موبائل پر ویڈیو بنانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شک ہے کہ ویڈیو ٹیمپر نہ کر دی جائے۔ پھر فیصلہ کیا گیا کہ اگلی صبح بیرسٹر گوہر اپنا موبائل لائیں گے اور پیغام ریکارڈ کیا جائے گا۔ شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا کہ اسی رات رینجرز کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد تمام طے شدہ معاملات ختم ہو گئے۔ ان کے مطابق اس وقت تک ریاست کسی تصادم کی خواہش مند نہیں تھی، اس لیے ہر قسم کے کمپرومائز پر آ چکی تھی مگر رینجرز واقعے کے بعد سب ختم ہو گیا۔ یہ ڈیل تھی، اس کے تحت صبح عمران خان کی رہائی ہونی تھی۔
اب فیصلہ خود ہی کر لیجیے کہ عمران خان کی رہائی کی راہ میں کون رکاوٹ ہے۔ شیر افضل مروت کے دعوے کو ابھی تک کسی نے جھٹلایا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عمران خان ڈیل کر چکے تھے۔ عمران خان اگر باہر آ گئے تو پی ٹی آئی بہت سے لیڈر بونے ہو جائیں گے۔ کتنے ہی یوتھیوبرز بی روزگار ہو جائیں گے۔ عمران خان کا نہ جھکنے والا، نہ ڈیل کرنے والا بت بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا ان بینیفشریز کی مجبوری ہے۔ اگر معتدل مزاج لیڈر شپ نے معاملات اپنے ہاتھ میں نہ لیے تو اشتعال دلانے والے 2026میں بھی بانی پی ٹی آئی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہیں گے۔ وہ جیل کاٹے گا اور مفاد پرست فائدے اٹھائیں گے۔

