مارٹن لوتھر، اکبر بادشاہ اور ہمارے جدید دانشور

دین اسلام کا ریاست اور سیاست کے ساتھ تعلق ایک بار پھر عالم اسلام کے مقتدر حلقوں میں زیر بحث ہے، اس سلسلے میں جنوری 2007ء کے دوران شائع ہونے والا مضمون ایک بار پھر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بخاری شریف میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ (صحرائی جانور) کے بِل میں گھسا ہے تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ! کیا پہلی امتوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ‘تو اور کون ہے؟’

اس حدیث مبارک کی تشریح میں محدثین کرام نے مختلف پہلو ذکر کیے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ یہود و نصاریٰ نے جس طرح تورات، انجیل اور زبور میں تحریفات کا راستہ اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں میں معنوی تبدیلیوں اور خدائی احکام کو اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ان کے الفاظ تک بدل ڈالے اور آسمانی تعلیمات سے انحراف کی جو صورتیں انہوں نے اختیار کیں، مسلمانوں میں بھی ایسے گروہ ہوں گے جو اس ڈگر پر چلیں گے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنی خواہش یا فہم و دانش کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسی طرح کی صورتیں اختیار کریں گے۔

چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے لیے بیسیوں گروہ آئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو نت نئے معانی پہنانے کی کوشش کی اور یہود و نصارٰی کی یاد تازہ کر دی، البتہ قرآن و سنت کے الفاظ میں ردوبدل کی سہولت انہیں کبھی حاصل نہیں رہی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت اپنے ذمہ لے کر اس کے ساتھ اس کی عملی تشریح کے طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت کو بھی قیامت تک محفوظ رکھنے کا اہتمام کر دیا۔ اس لیے مسلمانوں میں ایسے گروہوں کا سارا زور معنوی تحریف پر صرف ہوتا چلا آ رہا ہے اور علامہ اقبال کے بقول ”خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں” کے مصداق قرآنی تعلیمات ایسے گروہوں کی تحریفی تلبیسات کا مسلسل شکار ہوتی چلی آرہی ہیں۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کا حصہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی غالب اکثریت اور اجتماعی دھارے نے اپنے لیے ”اہل السنہ و الجماعہ” کا ٹائٹل اختیار کر کے اس تحریف و تلبیس کے راستے میں بھی مضبوط اور ناقابل شکست دیوار کھڑی کر رکھی ہے کہ سنتِ رسول اور جماعت صحابہ کو دین کی تعبیر و تشریح کا حتمی معیار تسلیم کر لینے کے بعد کسی ایسی تحریف و تلبیس کا راستہ کھلا نہیں رہ جاتا جس پر چل کر یہود و نصاریٰ کی طرح قرآن و سنت کو من مانے معانی اور خود ساختہ تعبیر و تشریح کا جامہ پہنایا جا سکے، البتہ یہ کشمکش مسلسل جاری ہے اور قیامت تک اسی طرح چلتی رہے گی۔

اس پس منظر میں ہمارے ”تجدد پسند” دانشوروں کی فکری و علمی کاوشوں پر نظر ڈالی جائے تو اس کا ایک اور دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے جس کا ہم آج کی محفل میں مختصر تذکرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ پندرہویں صدی عیسوی میں مغرب میں نصاریٰ کے بعض علماء نے، جن میں جرمن مسیحی راہنما مارٹن لوتھر سرفہرست ہیں، پاپائے روم کے خلاف بغاوت کی اور پاپائیت کے نظام کو چیلنج کرتے ہوئے بائبل کی تعبیر و تشریح کا ایک نیا سسٹم قائم کیا جس کی بنیاد پر پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا۔ اور پاپائے روم کے کیتھولک فرقہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کے پروٹسٹنٹ فرقہ کی یہ کشمکش بائبل کی تعبیر و تشریح اور مسیحی تعلیمات کے سوسائٹی پر عملی اطلاق کے حوالہ سے مسلسل چلی آرہی ہے۔

ہمارے بعض دانشور دوستوں کے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ ہم آخر کیوں ایسا نہیں کر سکتے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے اب تک صدیوں سے چلے آنے والے فریم ورک کو چیلنج کر کے اس کی نفی کریں اور مارٹن لوتھر کی طرح قرآن و سنت کی نئی تعبیر و تشریح کی بنیاد رکھیں، چنانچہ انہوں نے بھی ”ری کنسٹرکشن” کے جذبہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کی” قدم بہ قدم” پیروی کا راستہ اختیار کیا اور قرآن و سنت کی تعبیر نو کے کام کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام مارٹن لوتھر کی وفات کے فوراً بعد اکبر بادشاہ کے دور میں شروع ہوگیا۔ لوتھر کی وفات 1546ء عیسوی میں ہوئی جبکہ اکبر بادشاہ کی ولادت کا سن 1542ء عیسوی ہے۔ گویا عالم اسلام میں لوتھر کے نقش قدم پر چلنے کے لیے جلال الدین اکبر، لوتھر کی زندگی میں ہی جنم لے چکا تھا۔

اکبر بادشاہ کی ابتدائی زندگی ٹھیٹھ مذہبی تھی، مگر درباری قسم کے علماء اور دانشوروں کی مذبوحی حرکات نے اس کے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ دین اسلام کو ایک ہزار سال ہو چکے ہیں اور اس کی تعبیر و تشریح پرانی ہو گئی ہے جس کی تجدید ضروری ہے اور اب کوئی ایسا ”مجتہد مطلق” سامنے آنا چاہیے جو دین کی نئی تعبیر و تشریح کے لیے اتھارٹی کی حیثیت اختیار کرے اور اس کی بات کو دین کے معاملے میں فیصلہ کن تصور کیا جائے۔ چنانچہ اس نے اس مقصد کے لیے سب سے پہلے علمائے امت کے اس اجتہادی نظام کو چیلنج کیا جس نے دین کی تعبیر و تشریح کو ایک مربوط نظام سے وابستہ کیا ہوا تھا اور جس کی موجود گی میں دین کے کسی حکم کی کوئی ایسی تشریح ممکن نہ تھی جسے مارٹن لوتھر کی تعبیرات و تشریحات کی طرح ”ری کنسٹرکشن” قرار دیا جا سکے، چنانچہ اس نے اپنے لیے اجتہاد مطلق کا منصب ضروری خیال کیا اور خود اس کے ایک درباری عالم ملا عبد القادر بدایونی نے ”منتخب التوریخ” میں اس محضر نامے کا یہ متن نقل کیا ہے جس پر ملک بھر کے علمائے کرام سے جبراً دستخط کرائے گئے اور جنہوں نے دستخط کرنے سے گریز کیا وہ ملا عبداللہ سلطان پوری اور ملا عبد النبی گنگوہی کی طرح جلاوطنی اور شہادت کے مقام سے سرفراز ہوئے۔ اکبر بادشاہ کو ”مجتہد مطلق” قرار دینے کا محضر نامہ ملا عبد القادر بدایونی کے بقول یہ ہے کہ:

”خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اور حضرت سلطان کہف الانام امیر المومنین ظل اللہ علی العالمین ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ سب سے زیادہ عدل والے، عقل والے اور علم والے ہیں۔ اس بنیاد پر ایسے دینی مسائل میں جن میں مجتہدین باہم اختلاف رکھتے ہیں، اگر وہ اپنے ثاقب ذہن اور رائے صائب کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے پیش نظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اس کو معین کر دیں اور اس کا فیصلہ کریں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا فیصلہ قطعی اور اجماعی قرار پائے گا اور رعایا اور برایا کے لیے اس کی پابندی حتمی و ناگزیر ہوگی۔”

اس کے بعد جلال الدین اکبر نے ملا مبارک، ابوالفضل اور فیضی جیسے ارباب علم و دانش کی معاونت و مشارکت سے اسلام کی جو ”ری کنسٹرکشن” کی وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ اس تعبیر نو کی بنیاد اسلام کو محدود ماحول سے نکال کر مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے، مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اور اسلامی احکام و قوانین کو تقلید و جمود کے دائرے سے نکالنے کے تصور پر تھی اور خود اکبر بادشاہ کے درباری عالم ملا عبد القادر بدایونی کی تصریحات کے مطابق اس کا عملی نقشہ کچھ یوں تھا کہ:

٭سورج کی پوجا دن میں چار وقت کی جاتی تھی۔ ٭ بادشاہ کو سجدہ کیا جاتا تھا۔ ٭ کلمہ طیبہ میں ”لا الٰہ الا اللہ” کے ساتھ ”اکبر خلیفة اللہ” کہنا لازمی کر دیا گیا تھا۔ ٭بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے درج ذیل عہد لیا جاتا تھا کہ ”میں اپنی خواہش، رغبت اور دلی شوق سے دین اسلام مجازی اور تقلیدی سے علیحدگی اور جدائی اختیار کرتا ہوں اور اکبر شاہی دین الٰہی میں داخل ہوتا ہوں اور اس دین کے اخلاص کے چاروں مرتبوں یعنی ترک مال، ترک جان، ترک ناموس و عزت اور ترک دین کو قبول کرتا ہوں”۔ ٭ بادشاہ کے مرید آپس میں ملتے تو ایک ”اللہ اکبر” کہتا اور دوسرا جواب میں ”جل جلالہ” کہتا۔ یہی ان کا سلام و جواب ہوتا تھا۔ ٭خط کے آغاز میں ”اللہ اکبر” لکھنے کا رواج ڈالا گیا۔ ٭ سود اور جوئے کو حلال قرار دیا گیا، شاہی دربار میں جوا گھر بنایا گیا اور شاہی خزانہ سے جواریوں کو سودی قرضے دیے جاتے تھے۔ (جاری ہے)