چوتھی قسط:
استنبول کے علاوہ ترکیہ کے دیگر بڑے شہروں بورصہ، اورفہ، غازی انتب، ریحان لی، ازمیر، آئیڈن وغیرہ بھی جانا ہوا ۔اسی طرح ترک ڈراموں کے اصل کرداروں ارطغرل غازی، حلیمہ، ادیبالی، بالاخاتون، غازی عثمان، ان کے اورحان اور دیگر کی قبروں پر جاکر فاتحہ خوانی کی۔ قرآن پڑھ کر ایصال ثواب کیا۔ ترکی کا سفر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں، ان سب کی تفصیلات آپ ہمارے ترکی کے سفر نامے ”ترکی: کل اور آج ” میں اور ہمارے یوٹیوب چینل پر ملاحظہ کیجئے گا۔ ہمیں راستے میں چند ممالک کاپڑاؤ کرکے گلستان اندلس پہنچنا ہے جس کی ڈالیوں میں کبھی ہمارا آشیاں ہوا کرتا تھا اور جہاں کی فضائیں دیکھنے کی خواہش ہر باذوق مسلمان کے دل میں بسی ہوتی ہے۔
ترکی کے مختلف علاقے اور شہر گھومتے گھماتے واپس استنبول آگئے تھے۔ آج یعنی 14ستمبر 2025ء کو ہمارا یہاں پر آخری دن تھا۔ وقت کم تھا اور ملاقاتیں، زیارتیں، جگہیں اور کام بہت زیادہ تھے، لہٰذا ایک ایک منٹ بلکہ لمحہ لمحہ قیمتی تھا۔ ہم نے وہ سارے کام ایک کاغذ پر لکھ لیے تھے جو کرنے تھے۔پھر ایک قہوہ خانے میں بیٹھ کر ڈاکٹر خاور ندیم صاحب کا انتظار کرنے لگے۔ڈاکٹر صاحب سے طے ہوا تھا کہ وہ صبح سویرے ہمیں یہیں سے وصول کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب وقت کے بہت ہی پابند اور وعدے کے پکے ہیں۔ جو وقت دیتے ہیں، اسے دوچار منٹ پہلے ہی پہنچ جاتے ہیں۔ جب وعدہ کرتے ہیں تو ضرور وفا کرتے ہیں، چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے 20منٹ پہلے ہی فون کرکے بتادیا کہ میں فلاں روڈ کے فلاں چوراہے پر اتنے بجے پہنچ رہا ہوں، آپ وہاں آجائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ آپ اسماعیل آغا روڈ آجائیں، تاکہ ہم شیخ محمود آفندی کی خانقاہ بھی دیکھ لیں۔
استنبول میں اسماعیل آغا روڈ پر واقع ہم شیخ محمود آفندی کی خانقاہ پہنچے تو یہاں ایک نئی دنیا تھی۔ مکمل روحانی خانقاہی ماحول تھا۔ ہر شخص جبہ پہنے ہوئے، سر پر خاص وضع قطع کی پگڑی یا ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح، خوشبو سے معطر رومال تھے۔ یہ پورا علاقہ ہی خانقاہی ماحول میں ڈوبا ہوا تھا۔ بوڑھے، نوجوان اور بچے سب ہی اس قسم کے لباس میں ملبوس تھے۔ قریب میں ایک بڑا دینی مدرسہ بھی تھا۔ ترک نوجوان دینی کتابیں سینوں پر لگائے پڑھنے جا رہے تھے۔ خواتین کی دینی تعلیم کے لیے الگ سے ایک بڑا اور خوبصورت تعلیمی ادارہ تھا۔ خواتین، لڑکیاں اور بچیاں بھی مکمل شرعی لباسوں اور برقعوں میں تھیں۔ خواتین نے ہاتھوں پر سیاہ رنگ کے دستانے پہنے ہوئے تھے۔ یہ سب طالبات مدرسہ پڑھنے کے لیے جارہیں تھیں۔
اس علاقے میں جتنی دکانیں، مارکیٹیں تھیں وہ خانقاہی لوگوں کی ہی تھیں۔ زیادہ تر دکانیں لباس، عطر، پرفیوم، مسواک، ٹوپی، پگڑی، نقاب، حجاب، برقعہ، کتب خصوصاً دینی کتب وغیرہ کی تھیں۔ ہوٹل، ریسٹورنٹ، ایزی لوڈ شاپ وغیرہ بھی تھیں جس کے مالکان اور ملازم بھی خانقاہی ہی لگ رہے تھے۔ ہم نے جلدی جلدی خانقاہ کی تصاویر لیں، ویڈیوز بنائیں اور پھر گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: اب میں آپ کو ”آئی ایچ یچ” کے دفتر لے کر چلوں گا۔ ”آئی ایچ یچ” کے دفتر اس روڈ سے لے کر جائوں گا جہاں سے طیب اردگان نے استنبول کا میئر بننے کے بعد صفائی، تعمیراتی اور تعمیری کام کا آغاز کیا تھا۔ پہلے یہ بہت ہی تنگ روڈ تھا۔ گندگی سے اَٹا رہتا تھا۔ ہمہ وقت ٹریفک جام رہتا تھا۔ گھنٹوں گھنٹوں گاڑیاں پھنسی رہتی تھیں۔ عوام کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ اب دیکھیں! اس روڈ پر میٹرو بس اور ٹرام دونوں ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ نہ گندگی ہے اور نہ ہی رَش اور اژدحام ہے۔وہ استنبول جو کسی وقت غلاظت کا ڈھیر ہوا کرتا تھا اب یہ پیرس کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ ہمیں ترکی کی ”آئی ایچ یچ” کے دفتر پہنچتے پہنچتے۔ خیال یہ تھا کہ دفتر میں پندرہ سے بیس منٹ کی بات چیت ہوگی، لیکن ”آئی ایچ یچ” کے ڈاکٹر رمضان اور ان کے ساتھیوں نے اتنی محبت دی کہ گفتگو اور تبادلۂ خیال طویل ہوگیا۔ ابھی ہم نے شیخ محمد عوامہ کے پاس جانا تھا۔ ابھی ہم نے کمال پاشا جانا تھا، ابھی ہم نے ”پینوراما” جانا تھا۔ استنبول کی یہ 3اہم ترین جگہوں پر جانا تھا کہ وقت ختم ہوگیا، کیونکہ 12بجے کی فلائٹ تھی۔ انٹرنیشنل پرواز کے لیے ایرپورٹ پر کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچنا لازمی ہوتا ہے۔
استنبول کے ”مصطفی کمال اتاترک ایرپورٹ” کی طرف جاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے ترکی کے سیاسی منظرنامے پر معروضی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھی روشنی ڈالی۔ پرمغز گفتگو کی۔ مدلل انداز میں بتایا کہ عالمی صف بندی میں ترکی اس وقت کہاں کھڑا ہے؟ ترکی کے مستقبل کے لیے طیب اردگان اور ان کی پارٹی کا کیا وژن ہے؟ نوجوانوں کے لیے طیب اردگان نے کیا پلان تیار کیا ہے؟ ترکی کی معیشت کی کیا پوزیشن ہے؟” یہ سب سن کر ہم نے کہا: ”آپ ہیں تو ایم بی بی ایس ڈاکٹر، لیکن فلاسفی کے بھی خوب ماہر ہیں۔ دنیا بھر کے ہر موضوع پر آپ مؤثر گفتگو کرتے ہیں، اور ہر ایشو کو خوب سمجھتے ہیں۔” اتنی دیر میں ہم ایرپورٹ کے پارکنگ ایریا میں پہنچ چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے گاڑی پارک کی اور پھر ہم بیگ فرش پر چلاتے ہوئے ایرپورٹ میں داخل ہوگئے۔میرا ہینڈ کیری ڈاکٹر صاحب نے اپنے کندھے پر لٹکایا ہوا تھا۔ وہ مجھ سے ہر اعتبار سے بہت بڑے تھے، لیکن بے تکلف دوستوں اور جگری یاروں کی طرح معاملات اور گفتگو کررہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کمال پھرتی سے بیگ چیک کروا دیا۔ سامان کی چیکنگ کے بعد ہم ترکش ایرلائن کے کائونٹر پر پہنچ گئے۔ خاتون آفیسر سے ڈاکٹر صاحب نے ترکش زبان میں بات چیت کی تو انہوں نے جھٹ سے بورڈنگ کارڈ تیار کرکے دیدیا اور بیگ پر اسٹیکر چپکا کر اندر کی طرف روانہ کر دیا۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح سمجھاتے ہوئے کہا کہ دیکھیں وہ سامنے امیگریشن کیبن ہیں۔ کسی بھی کیبن پرجاکر کھڑے ہو جائیں، وہ دو چار منٹ میں آپ کو فارغ کردے گا تو پھر ”TK708” فلائٹ کا گیٹ نمبر دیکھتے ہوئے ویٹنگ روم میں چلے جائیں۔ مجھے چونکہ آگے جانے کی اجازت نہیں ہے، لہٰذا میں چلتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی وہ بغلگیر ہوئے، معانقہ کیا اور ہاتھ ہلاتے ہوئے ایرپورٹ سے باہر نکل گئے اور میں ان کی محبتوں کا مقروض ہوکر یادوں کی پوٹلی اٹھاتے ہوئے امیگریشن آفیسر کے کیبن پر جاکر کھڑا ہوگیا۔ (جاری ہے)

