پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے تناظر میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی ناگزیر ہو چکی ہے۔ یہ فیصلہ صرف ملکی سلامتی کے پیشِ نظر ہی نہیں بلکہ افغان مہاجرین کی اپنے وطن میں آبادکاری کیلئے بھی ایک ضروری قدم سمجھا جا رہا ہے۔ پورے پاکستان نے عمومی طور پر اور خیبرپختونخوا کے عوام نے خصوصی طور پر چار دہائیوں تک افغان مہاجرین کو نہ صرف اپنے گھروں میں پناہ دی بلکہ اپنے کاروبار میں بھی شراکت دی، ان کے ساتھ اپنے وسائل بانٹے اور مشکل حالات میں ان کی بھرپور مہمان نوازی کی۔ وسیع پیمانے پر اس قدر طویل مہمان نوازی کی مثال انسانی تاریخ میں آپ کو ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ اب جبکہ افغانستان میں امن قائم ہو چکا ہے تو ان افغانیوں کا اپنے ملک میں جا کر اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا ضروری ہو گیا ہے۔ پاکستانی حکومتوں نے ماضی میں کئی بار افغان مہاجرین کو واپس جانے کا موقع دیا لیکن اس عمل میں مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر ہوتی رہی۔
اب حکومت پاکستان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جن افغان مہاجرین کے پاس ویزا یا دستاویز نہیں انہیں فوری واپس بھیجیں گے۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 80ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ ان افغانیوں کو پناہ گزیں کیمپوں میں رکھا گیا، ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی اور ان کی خوراک وغیرہ کا بندوبست بھی حکومتِ پاکستان کے ذمے تھا۔ چونکہ افغانستان پر روس قابض تھا اس لیے امریکہ اور یورپی ممالک نے پاکستان پر ڈالروں کی برسات کی ہوئی تھی۔ ان ڈالروں کے سائے میں ہمارے حکمران یہ بات قطعاً بھول گئے کہ ان افغانیوں کو واپس ان کے وطن بھی بھیجنا ہے۔ یہ مہاجرین ان کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ بن گئے تھے۔ افغان مہاجرین نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور مہاجر کیمپوں سے نکل کر پاکستان کے شہروں اور قصبات میں پھیلتے چلے گئے۔ ایک کروڑ کے قریب افغانیوں کو پاکستان میں کینسر کی طرح پھیلانے میں سب سے بڑا کردار ”نادرا” نے ادا کیا جس نے تقریباً ہر افغانی کو پاکستانی شناختی کارڈ بنا کر دیا ہوا ہے۔ اب حکومت کے فیصلے کے مطابق ان افغانیوں کے شناختی کارڈز بلاک کیے جا رہے ہیں۔ افغان مہاجرین کا مکمل ڈیٹا جمع کر لیا گیا ہے۔ ان کی واپسی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ اگر پاکستان ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان اپنے سر سے بہت بڑا بوجھ اتار پھینکے گا۔
دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ پناہ گزینوں کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ انہیں مخصوص تعداد اور خصوصی شرائط کے ساتھ ایک علاقے تک محدود کر دیا جاتا ہے مگر پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں افغان پناہ گزینوں کو پورے ملک میں بلا روک ٹوک آنے جانے اور ہر طرح کا کاروبار کرنے کی اجازت ہے جس کی آڑ میں وہ اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ کے علاوہ دہشت گردانہ کارروائیاں بھی کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے بہت سے مسائل اس مسئلے سے جڑے ہیں۔ دہشت گردی، روپے کی گراوٹ، بے روزگاری، اسلحہ اور منشیات کی فراوانی، گاڑیوں کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، انسانی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ اور معیشت کی تباہی کی بڑی وجہ مغربی سرحد سے لوگوں کی بلاروک ٹوک آمدورفت ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر نے افغان مہاجرین کی موجودگی کے معاملے کو مزید حساس اور سنگین بنا دیا ہے۔ سیکورٹی اداروں کی رپورٹس کے مطابق بعض غیرقانونی افغان مہاجرین ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں سہولت کار کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اگرچہ تمام مہاجرین اس کام میں ملوث نہیں لیکن کچھ شرپسند ان مہاجرین کی آڑ میں پاکستان میں موجود ہیں۔
افغانستان کی معیشت کا سارا دار ومدار پاکستان پر ہے۔ اسے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً دس سے پندرہ ملین ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے جس کا نصف پاکستان میں مقیم افغانی منی لانڈرز پورا کرتے ہیں۔ یہ افغانی افغانستان سے کوئلہ، میوہ جات اور دوسری اشیاء افغان کرنسی میں خریدتے ہیں اور پاکستان لا کر منافع سمیت پاکستانی روپوں میں فروخت کرتے ہیں۔ افغانیوں کو پاکستانی روپیہ اپنے ملک میں لے جانے کی اجازت نہیں ہے چنانچہ وہ غیرقانونی کام کرنے والے منی چینجرز کے ذریعے روپوں کو ڈالروں میں تبدیل کرتے ہیں اور وہ ڈالرز افغانستان سمگل کر دیتے ہیں۔ اس غیر قانونی ترسیل سے پاکستان میں ڈالرز میں کمی واقع ہو رہی ہے جس کا دباؤ روپے پر پڑ رہا ہے اور یوں روپیہ مسلسل گر رہا ہے جبکہ افغانی کرنسی مستحکم ہو رہی ہے۔ اسی لیے پرائیویٹ طور پر منی چینجنگ کا کاروبار ختم کر کے صرف بنکوں کے ذریعے غیرملکی کرنسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ کرنسی تبدیل کروانے والے کا ریکارڈ مرتب کیا جا سکے۔ نیز اس سے کرنسی کی ملکیت کے بارے میں معلوم ہو سکے اس طرح سے ملک میں موجود غیر ملکی کرنسی ریگولیٹ بھی ہو سکے گی۔
موجودہ حکومت نے غیر قانونی افغانیوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتی ادارے یہ طے کر چکے ہیں کہ اب مزید کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی اور غیرقانونی طور پر مقیم مہاجرین کو ہر صورت میں واپس بھیجا جائے گا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد نہ صرف پاکستان کی سلامتی کیلئے ضروری ہے بلکہ افغانستان کی ترقی اور خودمختاری کیلئے بھی یہ ایک مثبت قدم ہوگا۔

