یہ عارضی سیز فائر ہے یا مستقل جنگ بندی’ کچھ کہنا ابھی مشکل ہے۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں گولا باری فی الحال ختم ہو گئی ہے۔ جناب شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ ہوئی ہے جس میں آصف زرداری نے بھی شرکت کی۔ اس سے پہلے شہباز شریف مسلم لیگ کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے تھے۔ پیپلز پارٹی کی ترجمان نے کہا کہ ہم نے مسلم لیگ (ن) کو وعدے پورے کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ یہ وعدے کون سے ہیں؟ سب سے اہم تو پنجاب کے بلدیاتی انتخاب ہیں’ سیلاب متاثرین کے لیے بلوں میں ریلیف ہے اور گندم کی قیمت کاشتکارو ں کے حق میں کرنے کا مطالبہ ہے۔ بظاہر تو یہی کچھ مطالبات ہیں لیکن پس پردہ بھی یقینا ہوں گے۔ سب کچھ سامنے نہیں ہوا کرتا۔
یہ بظاہر اس جنگ کا سیز فائر ہے جو کچھ عرصے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین جاری تھی۔ کسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آیا کہ بیٹھے بٹھائے دو حکومتی جماعتوں کو اشتعال کیوں آ گیا؟ اس وقت اس کی ضرورت کیا تھی اور فائدہ کسے ہے؟ آغاز تو پیپلز پارٹی کی طرف سے ہوا لیکن شاید انہیں امید نہیں تھی کہ اس کا جواب بھی آئے گا۔ پھر دونوں طرف سے چاند ماری ہوتی رہی۔ پی ٹی آئی منتظر رہی کہ شاید پیپلز پارٹی ٹوٹ کر ان کے پاس آ جائے یا بات بڑھ کر عدم اعتماد تک پہنچ جائے لیکن یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ اسی دوران سہیل آفریدی وزیراعلیٰ کے پی منتخب ہو گئے۔ حکومتی جماعتوں کی چپقلش پر حیرت ہے۔ اس وقت پاکستان ایک بھنور سے نکل رہا ہے’ پوری طرح نکلا بھی نہیں۔ سیاسی استحکام کے نتائج کچھ مل رہے ہیں کچھ آئندہ دنوں میں ملنے شروع ہوں گے۔ ایسے میں اتحادی نظام کو’ جو اَب تک بہت سے مسائل کے باوجود کامیابی سے آگے بڑھتا رہا ہے’ بڑھتے رہنا چاہیے۔ حیرت ہے انہیں نظر نہیں آ رہا کہ بلوچستان اور کے پی میں روز دھماکے اور حملے ہو رہے ہیں۔ افغان سرحد پر عارضی جنگ بندی ہوئی ہے۔ روز شہادتوں کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی ٹیم مذاکرات کے بعد کیا رپورٹ بھیجے گی اور نئی قسط جاری ہو گی یا نہیں’ یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے گرداب میں پھنسے ملک میں’ جو ایک ایک قدم اس سے باہر آنے کی کوشش کر رہا ہے’ کون خیال کر سکتا ہے کہ دو صوبائی حکومتیں آپس میں نہ صرف لڑنے لگیں گی بلکہ یہ لڑائی وفاق تک بھی پہنچے گی۔ لیکن ایسا ہو گیا۔ اس دوران قومی اسمبلی اجلاس سے پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ محض صوبائی مسئلہ نہیں ایک سنگین واقعہ تھا لیکن دیگر ملکی حالات میں پیچھے رہ گیا۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ دونوں جماعتوں کو اکٹھا کرنے والی طاقتیں یہ معاملہ رفع دفع کروا دیں گی کیونکہ ملکی مفاد میں یہی ہے۔
لیکن یہ حیرت اپنی جگہ کہ صوبائی کارکردگی کے معاملات اٹھانے اور ایک دوسرے کو طعنے دینے کا بھلا یہ کون سا وقت تھا۔ جس نے یہ سلسلہ شروع کیا اس نے بھی غلط کیا اور جس نے جواب الجواب سے اسے بڑھایا اس نے بھی غلط کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس ہائبرڈ نظام میں موجود تو ہے اور فائدے بھی اٹھا رہی ہے لیکن اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کامیابیوں کے کریڈٹ سب (ن) لیگ کے کھاتے میں جمع ہو رہے ہیں جس کا نقصان انہیں آئندہ انتخابات میں ہو گا۔ یہ تو اپنی جگہ درست ہے کہ سیاسی نظام اور ملک کی کامیابیوں کا زیادہ تر سہرا وزیراعظم کے سر بندھا اور مسلم لیگ (ن) نے اس کا کریڈٹ لیا لیکن سچ یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اس پورے نظام میں اپنی شرائط اور اپنے مطالبات کے ساتھ شامل ہوئی تھی’ کابینہ میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا تھا اور انہیں مطلوبہ عہدے بھی دیے گئے۔ اب یہ کہنا کہ ہمیں کریڈٹ نہیں دیا جاتا’ کوئی ماننے والا نہیں۔ مسلم لیگ (ن) اپنے کھوئے قلعے مثلاً لاہور اور پنجاب واپس لینے کی پوری کوشش میں ہے۔ اسے نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی کے مفتوحہ علاقے اسے واپس مل سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس لڑائی کے پیچھے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کا سیاسی مستقبل ہے۔ یہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے نمائندے کو ممکنہ طورپر آئندہ وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس لیے ایک دوسرے کی کارکردگی کو چیلنج بھی کیا جا رہا ہے۔
اس چیلنج میں سندھ کی ایک خاتون رہنما نے اپنی کارکردگی کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ آئندہ پنجاب کو بھی سندھ جیسا بنایا جائے گا۔ سبحان اللہ! اس پر مکرر ارشاد کہا جائے…؟ سندھ حکومت کی جو کارکردگی ہے’ اسے سراہنے کے لیے کافی خوش فہم ہونا پڑے گا۔ حالیہ مون سون بارشوں ہی میں جو شہروں کے حالات سامنے آئے’ ہلا دینے والے تھے۔ ایسے میں میئر کراچی اگر دعویٰ کریں کہ میری کارکردگی سے حسد کی وجہ سے باتیں بنائی جا رہی ہیں تو اسے کامیڈی یا ٹریجڈی کے خانوں میں ڈالنا دشوار ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ اپنی مزعومہ کارکردگی کے بیانات دہرائے جاتے ہیں۔ شک سا ہونے لگتا ہے کہ یہ کس صوبے اور کس شہر کی کارکردگی کی بات کر رہے ہیں؟ کیا واقعی سندھ اور کراچی’ حیدر آباد وغیرہ کی؟ تو پھر جو ہم ان شہروں کو دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں اور وہاں رہنے والے بتاتے ہیں وہ کس زمین پر واقع ہیں؟
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اگر صوبائی کارکردگی کا موازنہ ہی ضروری ہے تو مریم نواز نے دیگر وزرائے اعلیٰ کو بے شمار جہات میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آئیڈیل نہ بھی کہیے تب بھی پنجاب میں بہت سے کام ایسے ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں جن کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ اور یہ کام صرف کاغذوں اور اشتہارات ہی میں نظر نہیں آ رہے، عملی طور پر بھی بہت سے کام دیکھے جاسکتے ہیں۔ بے شمار دوسرے کاموں کو چھوڑ دیں’ صرف سیوریج اور ڈرین کے نظام’ ناجائز تجاوزات اور صفائی کے معاملات ہی کو دیکھ لیں تو سابقہ دور سے زمین آسمان کا فرق نظر آنے لگے گا۔ بات صرف لاہور ہی کی نہیں’ دوسرے شہروں کی بھی ہے جہاں کے لوگ اپنے علاقوں میں جاری کاموں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اسی طرح ناجائز تجاوزات کے سلسلے میں بلاامتیاز اور بلا تفریق تمام شہروں اور دیہات میں کام ہوا ہے اور اس سے لوگ خوش ہیں۔ صفائی کا نظام بھی بہتر ہوا ہے’ صفائی کی گاڑیاں ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ شاہراہیں کوڑے سے اٹی نظر نہیں آتیں۔ صرف یہی کام گنے جائیں تو باقی صوبوں سے کارکردگی میں آگے ہوں گے۔ لیکن کام ان کے علاوہ بھی ہیں۔
لاہور وہ شہر ہے جو ملک میں سب سے زیادہ سموگ کا شکار ہوتا ہے اس سے نمٹنے کے لیے لاہور میں سموگ گنیں نصب کی گئی ہیں’ صوبے بھر میں اینٹوں کے بھٹے جو آلودگی کا بڑا سبب ہیں’ کنٹرول کیے گئے ہیں یعنی ایک مسئلے سے نمٹنے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔ امن وامان کے معاملات میں بھی پنجاب سندھ سے بہت بہتر رہا ہے اور اب بھی ہے۔ کارکردگی میں مریم نواز کی حکومت آگے نظر آتی ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ وقت نہ جماعتوں کی لڑائیوں کا ہے نہ صوبوں کی لڑائیوں کا۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں ان دونوں جماعتوں نے یک جہتی کا مظاہرہ کر کے کامیابیاں سمیٹی تھیں’ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت کی جانب سے خطرہ ابھی ٹلا نہیں اور یہ بھی یاد رکھیے کہ خان صاحب نے کے پی میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی وفاق کو زچ کرنے کے لیے کی ہے’ فلاحی کاموں کے لیے نہیں اور وفاق اس وقت دونوں جماعتوں کا نام ہے۔

