دوسری قسط:
15 ستمبر 2025ء سے 15اکتوبر 2025ء تک پورا مہینہ ہم نے یورپ کے ممالک اسپین، فرانس، بیلجیئم، انڈورا، پرتگال وغیرہ میں گزارا۔ در اصل ہم نے 2024ء میں اسپین جانا تھا۔ پروگرام طے ہو چکا تھا۔ ویزہ بھی مل گیا تھا، لیکن ہمارا اچانک ٹریفک حادثہ ہو گیا جس کی بنا ء پر یہ سفر ملتوی کرنا پڑا۔ تین ماہ ہم مسلسل بیڈ ریسٹ پر رہے۔ یہ ملتوی شدہ پروگرام بالآخر 15ستمبر 2025ء کو طے ہوا۔ اندلس مسلمانوں کا پایۂ تخت رہا ہے۔ سلطنتِ اندلس نے ایک طویل عرصے تک تقریباً 8سو سال تک دنیا پر حکومت کی ہے۔ یہاں کی اسلامی حکومت ایک مثالی حکومت تھی۔ الحمرائ، غرناطہ، مالقہ، قرطبہ، مدینة الزہرائ، جامع مسجد قرطبہ، لوشہ… اور نہ جانے کون کون سے علاقے آج بھی ہمارے دلوں پر نقش اور تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں۔ ہسپانیہ اور سپین میں مسلمانوں کے عروج کی 8سو سالہ سنہری تاریخ ہمیں آ ج بھی یاد آتی ہے اور خون کے آنسو رلاتی ہے۔ سلطنتِ اندلس نے آٹھ صدیوں تک پوری دنیا پر اپنے جاہ وجلال اور عظمت و سطوت کا لوہا منوایا تھا۔
آج سے 15سال پہلے جب ہم نے تاریخِ اسلامی کا تفصیلی مطالعہ کیا اور چلتے چلتے سلطنتِ اندلس تک پہنچے تو پہلے حیرت کے خوشگوار جھونکے لگے اور پھر افسوس کے ساتھ آنکھوں نے ساون بھادوں بر سا دیا۔ خداوند کریم کے ازلی و ابدی اصول ”عروج و زوال” پر یقین مستحکم ہو گیا۔ اسی وقت دل میں داعیہ پیدا ہوا تھا کہ اندلس، ہسپانیہ اور اسپین کا مطالعاتی دورہ ضرور کرنا ہے۔ ہر وقت دماغ کے نہاں خانوں میں یہ بات موجود رہتی تھی، لیکن اسباب مہیا ہوئے 2025ء میںکہیں جاکر۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر کام کے لیے وقت مقرر اور مقدر کر رکھا ہے۔ بس انسان کا کام تو انتھک محنت، جہدِ مسلسل اور اسباب کی تلاش میں رہنا ہے۔ ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ اپنی منشاء اور مواقع کو رب کی رضا کے مطابق بنا لیں تو کامیابی مل ہی جاتی ہے۔
ہم پہلی مرتبہ 2018ء میں ترکی گئے۔ دوسری دفعہ 2021ء میں ترکیہ گئے اور تیسری مرتبہ اب جارہے تھے۔ چنانچہ 15ستمبر 2025ء کی صبح سویرے ترکش ایئر لائن کے ذریعے ہم کراچی پاکستان سے استنبول ترکیہ کے لئے روانہ ہوئے۔ طیارے کے عملے کی جانب سے حفاظتی تدابیر انائوسمنٹ کی جارہی تھیں۔ میں ابھی مسنون دعائیں پڑھنے میں مصروف تھا کہ جہاز نے رینگنا شروع کردیا۔
آپ جانتے ہیں کہ انسان جب کسی لمبے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو اس کے دل میں وسوسے، اندیشے، خدشات، امیدیں، امنگیں، شوق، خوشی اور غمی کے ملے جلے جذبات ہوتے ہیں۔ ایک طرف اپنے گھر والوں، بیوی بچوں، ماں باپ، بہن بھائیوں اور دوستوں عزیزوں سے دوری کا احساس دامن گیر ہوتا ہے تو دوسری طرف نئی دنیا دیکھنے کی خوشی، نئے ماحول سے سیکھنے کی تڑپ، سفر کا شوق اور نئے لوگوں سے ملنے کی امنگیں ہوتی ہیں۔ ایک عجیب سی کیفیت ہوتی ہے۔ اس مرتبہ میں ایک ماہ کے لئے 8ملکوں کے طویل سفر پر روانہ ہو رہا تھا۔ ایک طویل اور قدرے مشکل سفر درپیش تھا۔ میں اتنے لمبے سفر کے لیے اب تک گھر سے باہر نہیں گیا تھا۔ ان دنوں ایک بچے کو بھی بخار ہورہا تھا۔ مجموعی حالات الجھے الجھے سے تھے۔ میری اپنی طبیعت بھی ٹھیک نہ تھی۔ معدے کے مسائل چل رہے تھے۔ ایسے میں ہمیشہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مسنون دعائیں سہارا دیتی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر روانہ ہونے سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ ان دعائوں میں وہ تمام احوال اور ضروریات آجاتی ہیں جو ایک مسافر کو درپیش ہوتی ہیں۔
میں یہ مسنون دعائیں پڑھ کر جیسے ہی فارغ ہوا تو ترکش ایرلائن کے جہاز نے رَن وے پر دوڑنا شروع کردیا۔ تمام مسافر بیلٹ باندھ کر خاموش تھے۔ اکثر مسافر دل ہی دل میں دعائیں اور آیة الکرسی وغیرہ پڑھتے محسوس ہو رہے تھے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جہاز کے ”ٹیک آف” کا مرحلہ بہت اہم ہوتا ہے۔ جہاز فلائی کر جاتا ہے یا پھر گر جاتا ہے، اس لیے اس نازک موقع پر جہاز میں بالکل سکوت، خاموشی اور بے چارگی کا ماحول ہوتا ہے۔ جہاز نے جیسے ہی اُڑان بھری، تو بعض مسافروں نے اپنا سر سامنے والی سیٹ کی پشت پر رکھ لیے۔ چند ایک نے الٹی کی۔ بعض کا جی متلانے لگا۔ 15منٹ کے بعد جہاز جیسے ہی ہموار ہوا۔ قدرے بلندی پر پہنچا تو جہاز کے اندر کا ماحول خوشگوار ہوگیا۔ مسافروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھرنے لگیں۔ مسافر مختلف کاموں میں مشغول ہوگئے۔ کوئی ہینڈ کیری سے کتاب نکال کر پڑھنے لگا تو کوئی اپنے موبائل سے ویڈیو نکال کر دیکھنے لگا۔ ماحول خوشگوار ہوگیا۔
ہم نے اپنی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے دانشور نما بابا سے گپ شپ کا فیصلہ کیا۔ علیک سلیک کے بعد میں نے استنبول شہر کا موضوع چھیڑ دیا، کیونکہ میں استنبول شہر کے بارے میں مزید معلومات چاہتا تھا۔ اگرچہ استنبول پر میں پہلے بھی کافی مطالعہ کر چکا تھا اور میرے بیگ میں بھی استنبول شہر پر لکھی گئی دو کتابیں موجود تھیں۔ موٹی عینک والے بابا نے وہ پہلے والا جملہ ہی دوہرایا کہ ”بیٹا! استنبول کو ”سلطان فاتح محمد” کا شہر کہا جاتا ہے۔” کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کی تاریخ تو آپ کو معلوم ہوگئی نا۔ اگر نہیں معلوم تو میں دوہرائے دیتا ہوں۔” میں نے کہا: ”جی! مجھے معلوم ہے۔” پھر کہنے لگے: ”استنبول شہر اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کا ایک انوکھا اور منفرد شہر ہے۔ یہ شہر بیسیوں خصوصیات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کا حامل ہے۔” میں نے پوچھا: ”باباجی! استنبول شہر کو شروع سے استنبول ہی کہا جاتا رہا ہے یا پھر اس کے کئی نام رہے ہیں؟”
باباجی نے اپنی آنکھوں سے موٹی عینک اتارتے ہوئے کہا: ”اس شہر کے نام بھی دیگر بڑے اور اہم شہروں کی طرح نام بدلتے رہے ہیں۔ ماضی میں اس شہر کے بے شمار نام رہے ہیں۔ تیسری صدی عیسوی میں جب رومی بادشاہ ”قسطنطین” نے اس شہر کو اپنا دارالحکومت بنایا تو اس کا نام ”قسطنطنیہ” ہوگیا تھا۔ یہ شہر 11سو سال تک سلطنتِ روما کو پایۂ تخت رہا ہے۔ قدیم عربی کتب ِتاریخ میں اس کا نام ”مدینة الروم” ملتا ہے۔ اس طرح مختلف کتابوں میں اس کے کئی اور نام بھی ملتے ہیں۔آدھے پون گھنٹے کے سفر کے بعد ترکش ایرلائن کے میزبانوں کی طرف سے ریفریشمنٹ پیش کیا جانے لگا تو باباجی ادھر متوجہ ہوگئے اور میں اپنے ہینڈ کیری سے استنبول کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب نکال کر مطالعہ کرنے لگا۔
میرے ذہن کے نہاں خانوں پر تاریخ کے یہ ورق گردش کررہے تھے کہ نجانے کب آنکھ لگ گئی۔ ترکش ایرلائن کی ایرہوسٹس کی آواز سے آنکھ کھلی کہ بیلٹ باندھ لیں۔ جہاز تھوڑی دیر میں استنبول ایرپورٹ پر لینڈ کرنے والا ہے۔ یہ تقریباً 6گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ پاکستانی وقت کے مطابق صبح ساڑھے پانچ بجے کراچی ایرپورٹ سے جہاز اُڑا تھا۔ یہ 6گھنٹوں کا طویل سفر یوں محسوس ہوا جیسے لمحہ بھر میں کٹ گیا ہو۔ (جاری ہے)

