سیلاب کے جانے کے بعد دھوپ اب مٹی کی تہہ پر چمک رہی تھی، مگر زمین ابھی بھی نم تھی۔ جیسے ابھی رو کر چپ ہوئی ہو۔ کہیں کہیں جہاں زمین سے پانی اترا نہیں تھا۔ وہاں ایسا معلوم دے رہا تھا کہ زمین آنسوؤں میں تیر رہی ہے۔ دکھ بھرے لہجے میں نوحہ کناں تھی۔ فریاد کر رہی تھی کہ میرے کندھوں سے سیلاب کا بوجھ اتارا جائے مگر بوڑھا انسان اپنے ٹوٹے گھر کے باہر بیٹھ کر آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی زمین کے ساتھ مل کر چپکے سے آنسو بہا رہا تھا۔ وہی کھیت جو چند ہفتوں قبل لہلہا رہے تھے، اب ڈوبی اور تباہ فصل کے ساتھ حکومت کے انتظار میں تھا۔ دور بند ٹوٹنے کی جگہ پر اب ایک چھوٹا سا تالاب بن چکا تھا۔ کھیتوں کے بیچ میں ایک بیل مرا پڑا تھا۔ اکثر کھیتوں کی اسی طرح کی صورت حال تھی۔ گھر کی کئی عورتیں ملبے سے اپنے برتن تلاش کر رہی تھیں اور ایک ایک کرکے بہت سے برتن وہیں کیچڑ میں دفن تھے۔ شاید برتنوں نے ٹھان لی ہو کہ کچھ ہو جائے یہیں مر جائیں گے لیکن ہندوستان سے آئے ہوئے ریلے کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ پانی اترنے کے بعد بہت سے کسان اپنی زمینوں کی جانب جا رہے تھے۔ کوئی بیج تلاش کر رہا تھا، کسی کو کھاد کی طلب تھی۔ سیلاب چلا گیا، اس کے ساتھ ہی زندگی لوٹ آئی تھی، اپنی زمین کو دوبارہ سجانے سنوارنے اور بونے کے قابل بنانے کی محنت شروع ہوگئی۔ بہت سے کسانوں نے بازار کا رخ کیا ہوگا، مگر کھاد کی بوری، بیج، کیڑے مار ادویہ اور دیگر ضروریات کے نرخ سن کر ان کے ہوش اڑ گئے ہوں گے۔ حکومت کی طرف سے جتنی زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ امداد کے اعلانات کیے جا رہے ہیں، اس امداد کے حصول میں بہت سے کسانوں کو کئی اقسام کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگر ہم جی ڈی پی کو مدنظر رکھیں تو اس کا نصف سے کم حصہ شدید متاثر ہوچکا ہے۔ اس کے اثرات شہروں تک پہنچ جائیں گے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق سالانہ ترقی کی شرح 2.68فیصد رہی ہے۔ رواں مالی سال میں اب تک زراعت کی کارکردگی، اس کے علاوہ شرح ترقی کا تخمینہ 2فیصد لگایا گیا تھا۔ گزشتہ مالی سال جسے گزرے 3ماہ ہوئے، اس کی کارکردگی یہ رہی کہ برآمدات 32ارب 10کروڑ ڈالر رہیں۔ درآمدات تقریباً ساڑھے 58ارب ڈالر کے باعث تجارتی خسارہ 26ارب 40کروڑ ڈالر سے زائد رہا۔ رواں مالی سال 23ارب ڈالرز کی ادائی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن کر رہ جائے گی۔ اتنی رقم کی ادائی کے لیے معیشت پر بہت بڑا بوجھ پڑے گا اور اس بوجھ کا بیشتر حصہ ترقیاتی منصوبے برداشت کریں گے۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی معیشت پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لیا گیا، البتہ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں فوری اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 5.8ارب روپے کے فوری ریلیف پیکیج منظور کیا گیا ہے اور 4ارب روپے فوری جاری کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی صوبائی سطح پر امدادی پیکیج کی منظوری دی ہے۔ مزید یہ کہ 2855دیہات کے لیے آبیانہ اور زرعی آمدنی ٹیکس معاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ سیلاب متاثرین کی گھر کی بجلی کے بل برائے ماہ اگست معاف کردیے گئے ہیں۔ بیرونی امداد کے سلسلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے 3ملین ڈالر کی ایمرجنسی گرانٹ ترامیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی 30کروڑ ڈالر وفاقی حکومت کو فوری ملنے کا امکان ہے۔
حکومت کو ماحولیاتی مزاحمت اور تیاری کے طریق کار لائحہ عمل اور منصوبے کا اعلان کرنا چاہیے اور تمام شہریوں کو اس میں شمولیت آگاہی پروگرام تیاری کے مراحل اس کے علاوہ دیگر تمام امور سے آگاہ کر دینا چاہیے۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کیلئے چیلنجز تو بہت زیادہ ہیں۔ اوپر سے قرض کا بوجھ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ قرض میں مزید قباحت اور مشکلات پیدا کرنے والا عنصر سود کی تباہ کاریاں بھی بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف امداد کے سلسلے میں کرپشن، اقربا پروری، سیاسی مداخلت، امداد کا غلط استعمال اور دیگر امور اور امداد کی فوری ترسیل اور صحیح افراد تک بروقت پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کر سکتی ہے۔ حکومت کو افراط زر کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ تعمیرات کے سلسلے میں بہت سا تعمیراتی میٹریل ایسا ہے جس کی طلب بڑھنے کے فوری امکانات ہیں کیونکہ ان کی پیداوار کم اور یکدم طلب میں اضافے سے طلب ورسد میں عدم توازن کے باعث افراط زر کا خدشہ ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ معاشی نمو پر سیلاب کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

