پاک افغان تنازع کے حوالے سے دونوں ممالک میں مذاکرات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، آج بھی ہور ہے ہیں اور آئندہ بھی یہ چلتے رہیں گے۔ ایک بات مگر نوٹ کرکے رکھ لیں کہ یہ مذاکرات تب تک کامیاب نہیں ہوسکتے، جب تک معاملہ کے بنیادی محرک اور وجہ ِ تنازع کو دور نہیں کر لیا جاتا۔ وہ وجہ تنازع تحریک طالبان پاکستان فتنہ الخوارج الہند ہے۔ جب تک افغان طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی سرپرستی، فنڈنگ اور سپورٹ جاری رکھے گی، تب تک چاہے چین، روس، قطر یا کوئی بھی دوسرا ملک ثالثی کرا لے، کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ اصل وجہ تنازع کو دور کرنے کے بعد ہی پاک افغان تعلقات نارملائز ہوسکتے ہیں، اس کے بغیر ہرگز نہیں۔
طالبان حکومت ٹی ٹی پی کو سپورٹ کیوں کر رہی ہے؟یہ بہت اہم سوال ہے۔ اس کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں، مختلف آرا ہیں۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ افغان طالبان کے اندر ٹی ٹی پی کے لیے سپورٹ پہلے سے موجود تھی، تاہم اسے انہوں نے امریکا کے خلاف جدوجہد کے دوران مخفی رکھا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تب چونکہ مسلح جدوجہد چل رہی تھی تو بعض طاقتور فیلڈ کمانڈر اور گروپ جو تب محاذ پر جنگ لڑ رہے تھے، ان کی ٹی ٹی پی کے بارے میں رائے مختلف تھی اور وہ پاکستان کی سائیڈ لیتے تھے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، تاہم دو کی طرف اشارہ کروں گا۔ ایک تو ممتاز افغان طالبان کمانڈر داد اللہ مرحوم جس نے کم از کم دو مواقع پر فاٹا کی ایجنسیوں میں ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان معاہدے کرائے اور کوشش کی کہ تمام تر فوکس قابض غیر ملکی فوج سے لڑنے میں رہے جبکہ حقانی نیٹ ورک کے مشہور کمانڈر سراج حقانی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے مسائل پیدا نہیں کئے اور ٹی ٹی پی کے ساتھ فاصلہ کیا اور ان کی حوصلہ شکنی کی۔ بدقسمتی سے افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کا قندھاری گروپ زیادہ طاقتور ہوگیا، انہیں اہم ترین منصب مل گئے۔ اس قندھاری گروپ پر مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان مخالف جذبات غالب ہیں۔ ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب بھی پاکستان کے حوالے سے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں، وہ اس وقت وزیر دفاع ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کو ان کی فل سپورٹ حاصل ہے۔ افغان طالبان کے امیر ملا ہبة اللہ بھی قندھاری ہیں اور اطلاعات ہیں کہ وہ اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والے بعض لیڈروں جن میں گورنر صاحبان بھی شامل ہیں، ان کے زیر اثر آچکے ہیں۔ اسی قندھاری گروپ میں سے بعض کے بی ایل اے سے روابط کی بھی اطلاعات ہیں۔
جامعة الرشید کے سربراہ اور ممتاز عالم دین مفتی عبدالرحیم صاحب شاید وہ واحد عالم دین ہیں جنہوں نے کئی ماہ پہلے سے بڑے پرزور انداز میں یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان کو افغانستان سے خبردار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ بار بار اپنے مختلف ویڈیو بیانات اور پوڈ کاسٹ وغیرہ میں یہ کہتے رہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی اصل میں دونوں ایک ہیں اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو واضح طور پر افغان حکومت کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب کی ویڈیوز کا خاصا ردعمل بھی ہوا اور بعض لوگوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ مفتی عبدالرحیم صاحب نے لال مسجد کے حوالے سے مولانا عبدالعزیز کے شدت پسند بیانیے کا ابطال بھی دلائل اور معتبر گواہیوں کی مدد سے کیا، جس پر ان کے خلاف مخالفت کا طوفان امنڈ آیا۔ مفتی صاحب کی تمام باتیں درست نکلیں۔ جو کچھ انہوں نے افغانستان کے منفی عزائم کے بارے میں کہا تھا، انہوں نے افغانوں کے اندر پاکستان مخالفانہ زہریلے جذبات کی جو نشاندہی کی تھی، وہ سو فیصد درست نکلیں۔ جس بے شرمی اور بے حمیتی سے افغان فوجیوں نے پاکستانی شہدا کی وردیاں اتاریں، توہین کی اور انہیں مختلف شہروں کے چوکوں میں لٹکا کر تمسخر اڑایا، وہ تو پاکستان اور بھارت جیسے روایتی حریفوں کی جنگوں میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔
سوشل میڈیا پر مختلف حلقے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کی سپورٹ میں مختلف عذر اور حیلے بہانے تراشتے پھر رہے ہیں۔ بعض سیاسی حلقے اسٹیبلشمنٹ سے اپنی ناراضی کے باعث بھی اینٹی آرمی اور اینٹی پاکستان بیانیہ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ بہت ہی افسوسناک امر ہے۔ ان کے الزامات بہت کمزور اور غیر منطقی ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ پاکستان اس لیے ایسا کر رہا ہے کہ امریکا نے بگرام ائیر بیس واپس مانگا ہے اور پاکستان امریکی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ فضول بات ہے، اس لیے کہ اصل مسئلہ ٹی ٹی پی کی پاکستان میں کارروائیاں ہیں۔ آج ٹی ٹی پی پاکستان میں اپنی کارروائیاں روک دے، ہمیں افغان حکومت کے حوالے سے سب سے بڑی شکایت ختم ہو جائے گی۔ اس میں امریکا کہاں سے آ گیا؟ فوجی جوان اور افسر پاکستانی شہید ہو رہے ہیں، مسلسل یہ شدید حملے جاری ہیں۔ اس پر کیا پاکستان ردعمل کا اظہار نہ کرے؟
پختون خوا کے نامزد وزیراعلیٰ نے اپنی پہلی تقریر میں خاصی کمزور اور غیر منطقی باتیں کہیں۔ وہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، خارجہ پالیسی ان کا میدان نہیں۔ افغانستان کے ساتھ ریاست پاکستان جو بھی معاملہ طے کرے، اس کے لئے وزیراعلیٰ کے پی سے منظوری نہیں لی جائے گی۔ ایسا نہیں ہوتا بھیا۔ کیا انڈیا سے مذاکرات کے لیے پہلے مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد میں لینا پڑے گا کہ اس کی بارڈر کے پرلی طرف انڈین پنجاب ہے؟ پھر ایران سے خارجہ پالیسی طے کرتے ہوئے بلوچستان کی صوبائی حکومت سے اپروول لی جائے؟ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ کیا انڈیا اپنی خارجہ پالیسی بناتے ہوئے انڈین پنجاب یا ہریانہ کی صوبائی حکومت سے اپروول لیتا ہے؟ یا چین کے ساتھ پالیسی میں لداخ کے لوگوں سے مینڈیٹ لیا جاتا ہے؟ سہیل آفریدی اور تحریک انصاف کو سمجھنا چاہیے کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، یہ پاکستان کی جنگ ہے۔ دہشت گردی کا نشانہ ہم بن رہے ہیں۔ اس کا مقابلہ ہمیں ہی کرنا ہوگا اور واضح موقف کے ساتھ۔ پختونخوا میں آپریشن سیاسی نہیں ہو رہا۔ سیاسی کارکنوں کے خلاف نہیں۔ یہ تو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہے۔
کیا تحریک انصاف ٹی ٹی پی کو اپنا دوست سمجھتی ہے کہ اس کے خلاف آپریشن پر معترض ہے؟ کیا ان دہشت گردوں سے اب مذاکرات کا کوئی جواز بچا ہے؟ تاہم وفاقی حکومت کو چاہیے کہ نوجوان وزیراعلی کو کلاسیفائیڈ بریفنگ دیں اور انہیں ان شواہد سے آگاہ کریں۔ اگرچہ امکانات کم ہی ہیں کہ وزیراعلی کے پی قائل ہو پائیں۔ اس لیے کہ سہیل آفریدی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ میں ہر معاملے میں عمران خان سے مشورہ کروں گا۔ یعنی وہ ایک کٹھ پتلی وزیراعلی کے طور پر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیلز، ایکٹوسٹس اور کی بورڈ وارئیرز یہ طے کر لیں کہ وہ پاکستان کی سائیڈ پر ہیں یا افغانسان کی طرف۔ یہ بہت ضروری ہوگیا ہے۔ معاملات اس نہج پر جا چکے ہیں کہ آپ کو اپنے کیمپ کا تعین کرنا پڑے گا۔ غیر جانبداری کا ڈھونگ نہیں چل سکتا اور نہ ہی دونوں مسلمان ملک ہیں، لڑائی نہیں ہونی چاہیے، وغیرہ کے بھاشن چل سکیں گے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ بنیادی تنازع جب تک حل نہیں ہوتا، لڑائی چلتی رہے گی، اس کے مختلف راونڈز ہوں گے۔ کبھی خاموشی چھا جائے گی، کبھی اچانک شدت آ جائے گی۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ سب اوپر نیچے چلتا رہے گا۔ ہر کوئی اپنا دیکھ لے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ ہم جیسے تو پوری طرح یکسو ہو کر پاکستان کی سائیڈ پر کھڑے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ افغانستان کیا کھیل کھیل رہا ہے اور پاکستان کو کیوں تنگ کیا جا رہا ہے؟ اچانک افغان طالبان حکومت کے دل میں انڈیا کی محبت کیسے جاگ اٹھی اور اب تو یہ یوٹرن لیتے ہوئے ملا عمر کے روایتی موقف کو ترک کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھی انڈیا کا حصہ مان گئے ہیں۔
مجھے تحریک انصاف کے بعض لوگوں کی سمجھ نہیں آ رہی۔ پاکستان افغانستان کے حملوں کا جواب نہ دے تو اس پر بھی تنقید، طعنے وغیرہ اور اگر جواب دے دے تو افغان پروپیگنڈا تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے لگتے ہیں کہ دیکھیں گولہ گرنے سے یہ نقصان ہوگیا۔ بھیا یہ جنگ ہے، اس میں نقصان تو ہوگا۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ قصور کس کا ہے؟ جنگ کس نے چھیڑی اور پاکستان کو ردعمل کرنے پر کون مجبور کر رہا ہے؟ یہ کہنا بھی فضول ہے کہ میڈیا کے لوگ عسکری بیانیہ کو فالو کر رہے ہیں۔ اپنے وطن کی محبت میں لکھنا، اپنی افواج کو سپورٹ کرنا، اپنے اوپر حملہ آور دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دینا، ان کے زیریلے پروپیگنڈے کو کاونٹر کرنا عسکری بیانیہ نہیں بلکہ قومی غیرت اور حب الوطنی کہلاتی ہے۔ دنیا بھر میں قومی، ملی غیرت کی یہی تعریف مانی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے انصافین دوستوں کو اس حوالے سے کلیئر اور یکسو ہو جانا چاہیے۔ یہ فیصلہ کی گھڑی ہے اور اس میں اپنایا گیا موقف بعد میں بھی حوالہ بنا رہے گا۔

