شرم الشیخ معاہدہ اور مشرقِ وسطیٰ میں امن کے تقاضے

امریکا، مصر، قطر اور ترکیہ نے غزہ امن معاہدے پر دستخط کردیے، اسرائیل نے 2ہزار فلسطینی قیدی، حماس نے 20اسرائیلی یرغمالی رہا کردیے۔ مصرکے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی تقریب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی ، ترک صدر رجب طیب اردوان اور قطر کے امیر نے غزہ امن معاہدے پر دستخط کر دیے ۔ اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک تاریخی دن ہے، امن معاہدہ بڑی کامیابی ہے ، غزہ میں امن معاہدے سے مشرق وسطی میں امن قائم ہوگا، امن معاہدے کو کامیاب بنانے میں تمام ممالک کے شکر گزار ہیں، جنگ بندی میں مصر کا کردار قابل تعریف ہے، امن معاہدے میں مصر کا اہم کردار ہے، یہ پوری دنیا ایک تاریخی دن ہے۔

غزہ میں جنگ بندی اورتعمیر نو سے متعلق طے پانے والا معاہدہ بلاشبہ ایک تاریخی سنگ میل ہے اور اگر معاہدے کے تمام فریق اس معاہدے پر نیک نیتی اور مثبت سوچ کے ساتھ قائم رہیں تو اس سے مشرق وسطی میں پائے دار امن کے قیام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ بہت سے عالمی مبصرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ بندی اور امن معاہدے کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں غزہ میں جاری قتل عام اور نسل کشی رکوائی ہے (جو وہ بہت پہلے بھی کر سکتے تھے)، وہیں ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل کو بھی دنیا کے سامنے مزید رسوائی اور ذلت سے بچایا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی پر مجبوراً آمادہ ہوا کیونکہ اس نے غزہ کے غیور لوگوں کے حوصلے توڑنے، ان کو شکست دینے اور اپنے قیدی زبردستی چھڑانے کے لیے آخری حدتک تمام ممکنہ حربے آزمائے اور اپنی ترکش کے تمام تیر چلاکر دیکھ لیے تھے اور اس حقیقت سے بھی دنیا آنکھیں نہیں چراسکتی کہ ان تمام حربوں اور نسل کشی کے اقدامات کے لیے امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ اور ذاتی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل حمایت، پشت پناہی اور مدد حاصل تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کئی بار حماس کو سرینڈر کرنے کی دھمکی دی اور دوسری صورت میں جہنم کے دروازے کھولنے کا نہ صرف ڈراوا دیا بلکہ صہیونی درندے نیتن یاہو کو دنیا کی تاریخ کے مہلک ترین روایتی بم اور گولہ بارود بھی حسب منشا فراہم کرکے اپنی دھمکی پر عمل بھی کرکے دکھایا۔ اس کے نتیجے میں غزہ میں بیس ہزار بچوں سمیت ستر ہزار کے قریب جیتے جاگتے انسان لقمہ اجل بن گئے اور غزہ کی آبادی کی نوے فی صد تعمیرات کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں مگر اس کے ساتھ تاریخ کا یہ عجیب معجزہ بھی ہوا کہ اسرائیل اتنا کچھ کرنے کے باوجود فلسطینی مقاومت کو سرینڈر کرانے پر مجبور نہ کرسکا، دوسری جانب ان ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائیوں نے دنیا بھر میں اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کی مٹی پلید کرکے رکھ دی۔ صہیونی کارندے مغربی ممالک میں بھی جہاں وہ ہمیشہ اپنی مظلومیت اور مسکنت کے ڈھونگ رچاکر ہمدردیاں حاصل کیا کرتے تھے، نفرت کی علامت بننے لگے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف، بین الاقوامی فوجداری عدالت کے بعد خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا مرتکب قرار دیا اور صہیونیت نواز امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر سختیاں کرنے کے باوجود خود امریکا میں بھی اسرائیل کے خلاف احتجاج کی لہر تیز ہوگئی۔ یہاں تک کہ تازہ سروے کے مطابق امریکا کی یہودی کمیونٹی کی اکثریت نے بھی اسرائیل سے لاتعلقی اور برأت کا اظہار کیا۔

اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بقول خودیہ ادراک ہونے لگا کہ” دنیا بہت بڑی ہے۔” پھر جب نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ناز برداریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قطر پر حملہ کردیا اور قطر نے ایک چھوٹی سی ریاست ہونے کے باوجود اس پر اسٹینڈ لیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اندازہ ہوا کہ اس سے عرب ممالک کی چھ ٹریلین ڈالرز کی وہ سرمایہ کاری رک سکتی ہے جس کے انہوں نے اپنے دورہ خلیج کے دوران ان ممالک کے پیمان لیے تھے، تو انہیں خیال آیا کہ غزہ کی جنگ اب روکی جانی چاہیے۔ جنگ بندی معاہدے کے لیے بات چیت کے دوران بھی ٹرمپ انتظامیہ نے نیتن یاہو کی خواہشات کومقدم رکھنے کی پوری کوشش کی، نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے امن کا جو خاکہ پیش کیا گیا ، وہ بھی پوری طرح نیتن یاہو کی خواہشات کا آئینہ دار تھا مگر یہ امر خوش آیند اور حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان سمیت اسلامی ممالک نے اس منصوبے سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا، پھر فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس نے مضبوط اعصاب کا ثبوت دیتے ہوئے حتمی مذاکرات کے دوران اپنے بنیادی مطالبات منوالیے جن میں جنگ کا مکمل خاتمہ اور ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات شامل تھے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ معاہدہ فلسطینیوں کی جیت ہے۔ انہوں نے بے پناہ قربانیوں کے باوجود آخر دم تک اپنی مقاومت اور مزاحمت کا علم بلند رکھا۔ اسرائیل میں اس معاہدے کو نیتن یاہو حکومت کی شکست اور ناکامی سے تعبیر کیا جارہا ہے کیو نکہ اس طرح کا معاہدہ اپنے ہزاروں فوجی مروانے، اربوں ڈالرز پھونکنے اور اپنے منہ پر مزید کالک ملنے سے پہلے بھی کیا جاسکتا تھا۔ عالمی مبصرین کے مطابق اس معاہدے کے بعد نیتن یاہو کا سیاسی مستقبل تاریک ہے اور خدشہ یہ ہے کہ وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے معاہدے کو توڑنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کے باوجود فائرنگ کرکے چھ فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی بھیڑیے کی خون آشامی کی ابھی تسکین نہیں ہوئی مگر شرم الشیخ معاہدے کے بعد کیا دنیا اب نیتن یاہو کو دوبارہ فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کرنے کی اجازت دے گی؟ اور کیا ٹرمپ انتظامیہ اب بھی پوری دنیا کی مخالفت مول کر اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گی؟ یہ بہر حال ایک اہم سوال ہے۔

دنیا اگر مشرق وسطی میں پائے دار امن کا قیام چاہتی ہے تو اس کے لیے پوری عالمی برادری کو اب یکسو اور یک زبان ہوکر فلسطینی سرزمین میں مزید خونریزی قطعاً قبول نہ کرنے کا اعلان کرنا ہوگا۔ فلسطینی عوام نے صرف دو سالوں میں ستر ہزار جانوں کی قربانیاں دے کر دنیا کے سامنے اپنی جدی پشتی سرزمین کے ساتھ اپنی وابستگی اورآزادی و خودمختاری کے اپنے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ پیدائشی حق کے دفاع کا مقدمہ رکھ دیا ہے۔ ارض مقدس پر جاری معرکے نے دنیا پریہ بھی واضح کردیا ہے کہ آج کے دور میں ظلم، تشدد، جارحیت اور سفاکیت کے ہتھیاروں کے ذریعے کسی قوم کو غلام نہیں بنایا جاسکتا۔ لہٰذا دنیا کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ مشرق وسطی کے مسئلے کا پائے دار حل ایک مکمل اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی ممکن ہے جس کا دار الحکومت القدس الشریف ہو۔