دوٹوک جوابی کارروائی اور مؤثر سفارت کاری

پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ افواجِ پاکستان قوم کے تحفظ اور دفاع کی خاطر دہشت گردوں کے مراکز اور ٹھکانوں کو مسلسل نشانہ بناتی رہے گی۔ افغانستان میں دہشت گردوں، خوارج اور ان کے سرپرستوں کے ٹھکانوں پر پاک فوج کے دلیرانہ حملوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ فوج اس اعلامیے کے مندرجات پر عمل شروع کر چکی ہے۔ پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر افغان عبوری حکومت کے دستوں کی جانب سے کیے جانے والے حملے جس کے ردعمل میں پاک افواج کو کارروائی کرنا پڑی دراصل پاکستان کے اس طویل المدتی موقف کی تصدیق تھی کہ موجودہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی سرپرستی اور مدد کر رہی ہے۔

پاک افواج کی جانب سے افغان عبوری حکومت کی گوشمالی کے واقعات ایک ایسے ماحول میں پیش آئے جب سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، پاکستان کی سرحدوں پر بڑھتی ہوئی سختی اور نگرانی نے بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے کارندوں کے پاکستان میں داخلے کو روک دیا تھا۔ قبل ازیں پاکستان نے اپنے فوجیوں اور شہریوںکی شہادتوں میں ملوث ٹی ٹی پی سربراہ اور بھارتی معاونت سے چلنے والے مواصلاتی روابط کے مرکز اور دہشت گردی کے دیگر ٹھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ کارروائی متعدد وجوہ کی بنا پر ناگزیر تھی۔ طالبان حکومت نے پاکستان کی متعدد درخواستوں، اپنے وعدوں اور اخلاقی ضوابط کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ پاکستان کے جوابی اقدامات سے چوںکہ بھارت کی بھاری سرمایہ کاری پر کاری ضرب پڑ رہی تھی، لہٰذا اس کے ردعمل میں، بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کو مزید اہداف دیے جا رہے تھے۔ ممکنہ طورپر افغان وزیر خارجہ کو باہمی تعاون کے اسی سلسلے کی کڑی کے طورپر بھارت طلب کیا گیا جہاں بیٹھ کر افغان عبوری حکومت کے اہم عہدے دار نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کر کے پاک، افغان تعلقات پر تلوار چلا دی۔ عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون میں اضافے کی شنید بھی ہے اور اسی ذیل میں آزمائشی طورپر پاک افغان سرحد پر جھڑپ کا آغاز کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تاکہ دہشت گردوں کی بھاری کھیپ کو جدید ترین اسلحے کے ساتھ پاکستان میں داخل کیا جا سکے مگر اس سازش کو بھانپ لیا گیا۔ پاکستان چوں کہ پہلے ہی اعلی ترین سطح پر اس امر کا اعلان کر چکا تھا کہ بس اب بہت ہو چکا، مزید دھوکا دہی، فریب کاری اور جنگی حربو ں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، لہٰذا فوری طورپر جوابی کارروائی کی گئی جس میں انگور اڈہ سمیت متعدد پوسٹوں پر قبضہ کر لیا گیا اور افغانستان کے کئی صوبوں میں طالبان رجیم کی سرپرستی میں قائم دہشت گردی کے درجنوں مراکز کو تباہ کر کے نیا معمول قائم کر دیا گیا۔

یہ صورتِ حال اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ پاکستان کو مغربی اور مشرقی دونوں محاذوں سے امنڈتے خطرات کا نہ صرف بخوبی ادراک ہے بلکہ وہ اپنے دشمنوں کا سر کچلنے کا مکمل بندوبست کر کے بیٹھا ہے اور کسی بھی لبادے میں موجود فریبی اور مکار دشمن کا علاج اس کے گھر میں گھس کر بھی کر سکتا ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق دفاع کے اس نظریے کے تحت پاک فضائیہ، پاک آرمی اور راکٹ فورس کے اشتراک سے شروع کیے گئے آپریشن ”خیبر سٹروم” نے دفاعی اقدامات کی نوعیت کو تبدیل کر دیا ہے۔ یہ آپریشن درحقیقت کور کمانڈرز کانفرنس میں اعلان کردہ پالیسی کا عملی مظہر ہے، جس کے تحت سرحد پار موجود دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کو بار بار وارننگ دی گئی تھی اور بنوں حملے کے بعد حتمی انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ اب افغان طالبان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہیں یا پاکستان کے ساتھ، لیکن افسوس کہ ان تمام اقدامات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی بجائے طالبان حکومت میں شامل خارجی نظریات کے حامل عناصر نے بھارتی پراکسی کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان پر جارحیت کو ضروری خیال کیا اور آخرکار اپنی رہی سہی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا بیٹھے۔ ایک حکومت کا حصہ ہونے کے تحت انھیں کم از کم اس بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ پاکستان پر جارحیت کے نتائج کیا نکلیں گے؟ لیکن عملی سیاست، امورِ سلطنت اور جہاں داری کے اصولوں سے روگردانی کے نتائج ظاہر ہو کر رہے۔ یہ امر واضح ہے کہ دو پڑوسی ممالک میں جنگ کی سی کیفیت علاقائی تناظر میں کوئی خوش گوار تاثر نہیں رکھتی۔ اسی وجہ سے دفتر خارجہ کے مطابق، پاکستان کو افغان طالبان، فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے مشترکہ کھیل اور جارحیت پر گہری تشویش ہے۔ بھارتی پراکسی کا روپ دھار کر پاکستان پر حملے خطے کے امن و استحکام کے منافی ہیں۔ پاکستان نے اپنے دفاع کے حق کے تحت مؤثر جوابی کارروائی کر کے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا اور یہ یقینی بنایا کہ جہاں سے دہشت گردی ہوگی، اس کمین گاہ کو تباہ کر دیا جائے گا۔ پاکستان نے واضح کیا یہ حملے افغان عوام کے خلاف نہیں ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس سخت جوابی کارروائی کے اثرات فوری طور پر دیکھے گئے ہیں اور دہشت گردوں کی سرگرمیاں عارضی طور پر تھم گئیں ہیں۔

ریاست نے تمام افغان مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ اصول بھی طے کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر شرپسندی کے بدلے میں، جس کی کڑیاں افغانستان سے ملتی ہوں، افغان طالبان کی پوسٹوں کو اڑایا جائے گا۔ پاکستان کی طرف سے قرار دیا گیا کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم، دوستانہ اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے اور افغان عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کے قیام کی امید رکھتا ہے۔ یہ تمام اقدامات دراصل حالات کا ایک منطقی نتیجہ ہیں۔ جن سے امن کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں جب وہ عقل و فہم کو بالائے طاق رکھ دیں تو ایسے ہی حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اندرونی و بیرونی ہر قسم کے دشمن، دہشت گرد گروہوں اور شدت پسند اور نفرت کی سیاست کرنے والوں کو اس لیے سر اٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہتا کیوں کہ یہ تمام عناصر مآلِ کار بھارت کی پراکسی کے طورپر استعمال ہو کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک مشترکہ کوشش کا حصہ ہیں۔ مؤثر سفارت کاری کے ساتھ ساتھ پاکستان نے ایک مشکل جنگ ضرور چھیڑ دی ہے لیکن شاید اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ رہا تھا۔