سیکورٹی ذرائع کے مطابق اتوار کی شب اچانک افغان طالبان فورسز نے پاک افغان بارڈر انگور اڈا، باجوڑ، کرم ، دیر، چترال، چاغی اور بارام چاہ کے مقامات پر بِلا اشتعال بزدلانہ فائرنگ کی، جس کے جواب میں پاک فوج نے فوری اور شدید رد عمل دیتے ہوئے متعدد افغان پوسٹوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔ افغان دہشت گردوں پر پاکستانی فورسز کے وار اتوار کو دن بھر بھرپور انداز میں جاری رہے، بھاری نقصانات کے باعث متعدد افغان پوسٹیں خالی ہوگئیں، افغان فوجی لاشیں، یونیفارم اور ہتھیار چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ افغانستان نے پاکستان سے جوابی کارروائی روکنے کی درخواستیں کی ہیں۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کے متعدد سرحدی مقامات پر بلااشتعال فائرنگ اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی نے واضح کر دیا ہے کہ تحمل کی حد کے پار جانا کسی بھی ریاست کیلئے ناقابلِ برداشت ہو تا ہے۔ پاکستان نے طویل عرصے تک یکطرفہ طور پر تحمل کا مظاہرہ کیا، مگر اس برداشت کو مسلسل پاکستان کی کمزوری سمجھا گیا، تعدی اور جارحیت حد سے متجاوز ہوگئی تو پاکستان نے بھی اپنی طاقت دکھا دی اور بڑے اچھے انداز میں دکھا دی، جس نے مغربی سرحد پر ابھرنے والے نئے دشمن کے دانت کھٹے کردیے ہیں۔ 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد بڑی توقعات پیدا ہوئیں۔ بہت سے حلقوں کو امید تھی کہ افغانستان میں استحکام آئے گا، علاقائی تعاون بڑھے گا اور امن و امان جیسے مسائل حل ہوں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ افغانستان پر طالبانی قبضے کے بعد حالات پہلے سے بدتر ہوگئے۔ وہ پاکستان دشمن باغی عناصر جو امریکی جارحیت کے دوران افغانستان کی پٹھو انتظامیہ کی سرپرستی میں پاکستان میں سبوتاژ میں مصروف تھے، طالبانی اقتدار کے بعد ان کو پہلے سے زیادہ ریاستی حمایت اور آزادی میسر آگئی اور انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے افغانستان کو بیس کیمپ بنا کر پاکستان پر حملوں کا سلسلہ پہلے کی نسبت تیز کر دیا۔ پاکستان نے بڑے تحمل سے یہ معاملہ باہمی افہام و تفہیم اور امن و بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی راہ اپنائی۔ افغانستان کی طالبان انتظامیہ کو سمجھانے کی کوشش کی اور انہیں ثبوتوں کے ساتھ بار بار بتایا کہ کس طرح ان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے، مگر بدقسمتی سے طالبان حکومت نے پاکستان کی کسی بات کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور وہ پہلے دن سے حالت انکار کو روش بنائے ہوئے ہے اور پاکستان کے بار بار کے مطالبے کے باوجود یہ کہہ کر جان چھڑا رہی ہے کہ افغانستان کی زمین کسی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہو رہی۔
یہ بات کیسے تسلیم کی جائے کہ افغانستان کی زمین سرحد پار حملوں کیلئے استعمال نہیں ہورہی، جبکہ پاکستان کی سرحدی چوکیوں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے اندر فوجی اور دفاعی تنصیبات اور مراکز پر حملے معمول بن چکے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے عرصے میں افغانستان سے پاکستان میں چھ سو سے زائد بار دہشت گردانہ کارروائیاں کی گئی ہیں، جن میں سینکڑوں فوجی جوان شہید اور زخمی ہوئے۔ گزشتہ ماہ کابل میں روس، چین اور پاکستان کے خارجہ سیکرٹری مذاکرات میں بھی افغانستان سے سرحد پار ہونے والی دہشت گردی زیر بحث آئی مگر ایک بار پھر افغان حکومت نے منافقانہ روش اختیار کرتے ہوئے انکار کو شعار کیا، جس پر یہ اہم اجلاس بغیر کسی اعلامیہ کے اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بعد جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران خطے کے چار اہم ممالک اکٹھے ہوئے، اس اجلاس میں بھی افغانستان کی زمین سرحد پار دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے پر بات کی گئی۔ جنرل اسمبلی کے بعد ماسکو سمٹ میں بھی یہ بات زیر بحث آئی اور افغانستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے کردار پر نظر ثانی کرے اور خارجی گروہ کی سرپرستی بند کرے، مگر بدقسمتی سے افغان حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی اور بجائے اپنا گریبان جھانکنے اور خطے کے اہم ممالک کے تحفظات پر کان دھرنے کے انہیں نظر انداز کرکے پاکستان کے روایتی دشمن بھارت کے ساتھ ہاتھ ملانے کی راہ پر گامزن ہے۔ سوال یہ ہے کہ پڑوسیوں کو مطمئن کیے بغیر انڈیا کے ساتھ ہاتھ ملا کر افغانستان کیا ثابت کرنا چاہتا ہے اور اس عمل سے اسے کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟
افغانستان کی سرزمین کے سرحد پار دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے کی بات محض پاکستان کی الزام تراشی ہوتی تو عالمی ادارے اور خطے کے اہم ممالک بھی یہ بات نہ کرتے اور یہ صرف پاکستان کا بیانیہ ہوتا۔ جب روس، چین، ایران اور عالمی ادارے بھی اپنی اپنی فائنڈنگز کے نتیجے میں وہی بات کر رہے ہیں، جو پاکستان کر رہا ہے تو مان لینا چاہیے کہ پاکستان کی بات ، شکایت اور تحفظات غلط نہیںہیں، مگر حالات و واقعات ثابت کر رہے ہیں کہ افغان حکومت حسب معمول اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور حماقت پر ہی کاربند رہے گی اور اس کے کردار میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے تحفظات کو کوئی اہمیت نہ دیے جانے کے بعد جمعے کو پاکستان نے افغانستان میں گھس کر مطلوبہ دہشت گرد ٹھکانوں پر زبردست بمباری کی اور مطلوب دہشت گردوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ افغانستان کی جانب سے مسلسل انکار کے بعد پاکستان کے پاس اس کارروائی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا، مگر اس کے بعد اتوار کی شب بھارت کی طرح افغانیوں نے بھی پاکستان پر رات کی تاریکی میں بزدلانہ حملوں کا آغاز کردیا، جس کا جواب بھی حسب معمول پاکستان نے اسی طرح دندان شکن دے دیا ہے، جیسا منہ توڑ جواب دس مئی کی صبح بھارت کو دیا تھا۔
اتوار کے دن افغان حکومت کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں خفت مٹانے کیلئے ایک بار پھر بڑھکیں ماری ہیں اور حسب معمول پاکستان کے مطالبات اور تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الٹا پاکستان پر داعش کو پناہ دینے کے الزامات عائد کیے ہیں، جو بجائے خود افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونے کے پاکستانی دعوے کی تصدیق ہے۔ الٹا پاکستان پر الزام لگانے کی بجائے بہتر ہے کہ افغان حکومت منافقت چھوڑ کر امن، حکمت و تدبر کی راہ اپنائے اور خارجی دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دینے کا سلسلہ بند کرے۔ خارجی دہشت گردوں کی افغانستان میں موجودی ایک حقیقت ہے اور پاکستان کیلئے یہ سرخ لکیر ہے، افغانستان اگر امن چاہتا ہے تو اسے ان دہشت گردوں کو کنٹرول میں رکھنا ہوگا، ورنہ پاکستان خود ان عناصر سے نمٹنا جانتا ہے اور انہیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں میں بھی نشانہ بناتا رہے گا۔