پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان

کفر ٹوٹو خدا خدا کر کے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسی سال دسمبر کے مہینے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ انتخابی حلقہ بندیوں کے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ گویا قریباً ڈھائی ماہ بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات انعقاد پذیر ہونے جا رہے ہیں۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات بھی مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں ہوئے تھے۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد عمران خان نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں پر محض اس وجہ سے کلہاڑا چلا دیا تھا کہ بلدیاتی نمائندوں کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا۔ 3سال 7ماہ اکیس دن حکومت کرنے والے عمران خان اپنے پورے دور میں شکست کے خوف سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروانے کی ہمت نہ کر پائے تھے۔

بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی جمہوریت کی مضبوطی کا اندازہ لگانا ہو تو اس ملک کے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی اداروں کو حاصل اختیارات سے لگایا جاتا ہے۔ یہ ادارے جمہوری معاشرے کی شان، جان، پہچان اور آن ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہمیں جمہوریت اوجِ ثریا پر نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں باقاعدگی پائی جاتی ہے۔ ان کے جمہوری ادارے مکمل طور پر فعال اور بااختیار ہیں اور یہ ادارے مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی سے کوشاں رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں الٹی گنگا بہانے کا رواج ہے۔ ‘اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے’ کے مصداق بلدیاتی اداروں کو سب سے زیادہ نقصان ہمارے سیاست دانوں اور جمہوری حکومتوں نے ہی پہنچایا ہے۔ وہ جنہیں ہم آمر کہتے ہیں ان کے ادوار میں جمہوری ادارے پھلے پھولے بھی اور فعال بھی رہے۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی بھی ہوئی اور ان سیاسی نرسریوں نے ملکی سیاست کو بہت سے سیاستدان بھی عطا کیے۔ ایوب خان کا بی ڈی نظام ہو یا جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی سسٹم ہوں، سبھی نے بلدیاتی اداروں کو فعال اور مضبوط کیا۔ ہمارے سیاست دانوں کے لیے بلدیاتی نظام ایک ناپسندیدہ سسٹم ہے۔ آپ مشہور سیاسی خانوادوں پر نظر ڈال لیں۔ وہ کسی نہ کسی طور ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کو وراثت میں زمین اور جائیداد کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ملتی ہے۔ ان موروثی سیاست دانوں اور وڈیروں، جاگیرداروں کو بلدیاتی نظام وارا نہیں کھاتا۔ بلدیاتی نظام میں عام آدمی کو بھی آگے آنے کا موقع مل جاتا ہے جو اقتدار اور اختیارات پر قابض ان موروثی سیاست دانوں کو کسی صورت گوارا نہیں ہے۔

گزشتہ سال 2024ء میں یہ خبر تواتر کے ساتھ گردش کرتی رہی کہ پنجاب کے صوبائی وزیر بلدیات جناب ذیشان رفیق کی طرف سے ایک سمری تیار کر لی گئی ہے جو جون 2024ء میں ہی اسمبلی سے پاس کروا لی جائے گی۔ اس سمری کے مطابق پنجاب میں یکم جولائی 2024ء سے 31دسمبر 2025ء تک اٹھارہ ماہ کے لئے بلدیاتی اداروں کو جنہیں عمران خان کے دور میں معطل کیا گیا تھا اپنی مدت پوری کرنے کے لیے بحال کر دیا جائے گا۔ عوام کی طرف سے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا کیونکہ صرف صوبہ پنجاب میں ہی بلدیاتی ادارے معطل ہیں اور پی ڈی ایم کی حکومت، نگران حکومت یا موجودہ جمہوری حکومت نے بلدیاتی اداروں کی بحالی یا نئے بلدیاتی انتخابات کروانے کی طرف پیش رفت نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال جنہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد ان دو صوبوں میں عام انتخابات کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا، وہ بھی بلدیاتی اداروں کی طرف سے غافل ہی رہے۔

اِس وقت پنجاب میں صورت حال یہ ہے کہ گلیوں کے سولنگ اور نالیاں بھی ایم پی اے حضرات کی گرانٹ سے بنائے جاتے ہیں۔ وہ علاقے بدقسمت ہیں جن میں اپوزیشن پارٹی کا ایم پی اے جیتا ہے۔ ہمارے ہاں اپوزیشن کا ممبر اسمبلی صرف اسی وقت ڈویلپمنٹ فنڈز کا حقدار ٹھہرتا ہے جب وہ اپنی وفاداری تبدیل کر لیتا ہے۔ بصورتِ دیگر وہ فنڈز سے محروم رہتا ہے۔ اس وقت پنجاب ہی ایسا صوبہ ہے جہاں بلدیاتی نمائندے موجود نہیں ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو بنے ڈیڑھ سال ہو گیا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ مریم نواز شریف نے پنجاب میں اصلاحات اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی نیا اداروجود میں آ رہا ہے۔ مریم نواز شریف اپنے عوام کی خدمت میں شبانہ روز مصروف ہیں۔ ان کی مقبولیت اس وقت پورے عروج پر ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے بعد وہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کر کے جمہوری عمل کو مزید آگے بڑھائیں گی۔