ماسکو فارمیٹ اور افغانستان کی ”میں نہ مانوں” پالیسی

‘ماسکو فارمیٹ’ کے نام سے ایک بار پھر خطے کے ممالک ماسکو میں جمع ہوئے۔ ماسکو فارمیٹ خصوصی طور پر روس نے افغانستان کے حوالے سے بنایا ہے۔ اس کے کئی اجلاس گزشتہ چند برسوں میں ہوئے ۔اس بار بھی ان ممالک کے سینئر سفارتی نمائندوں نے شرکت کی۔ اگرچہ اجلاس کی کئی باتیں اعلامیہ میں نہیں ہیں، لیکن اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ خطے میں دہشت گردی سمیت افغانستان یا اس کے پڑوسی ممالک میں امریکی اڈے نہیں ہونے چاہئیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کئے، افغانستان نے اپنے موقف پر زور دیا۔

ماسکو فارمیٹ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 7اکتوبر 2025ء کو افغانستان پر ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشنز کا ساتواں اجلاس ماسکو میں افغانستان، بھارت، ایران، قازقستان، چین، کرغزستان، پاکستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے خصوصی نمائندوں اور اعلیٰ حکام کی سطح پر منعقد ہوا۔ بیلاروس کے ایک وفد نے بطور مہمان خصوصی اجلاس میں شرکت کی۔ پہلی بار افغان وفد نے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی سربراہی میں ایک رکن کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کی۔ تمام فریقوں نے ایک آزاد، متحد اور پُرامن ریاست کے طور پر افغانستان کے قیام کے لیے اپنی غیرمتزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔ اقتصادی اور تجارتی تبادلوں کی ترقی، علاقائی ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ افغانستان میں سرمایہ کاری کے تعاون کی ضرورت کو نوٹ کیا۔ انہوں نے افغان شراکت کے ساتھ علاقائی اقتصادی منصوبوں کی ترقی اور صحت کی دیکھ بھال، غربت کے خاتمے، زراعت اور آفات سے بچاؤ جیسے شعبوں میں مسلسل پیش رفت کو فروغ دینے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا، تاکہ افغانستان کو جلد ازجلد آزاد اور پائیدار ترقی کا احساس دلانے میں مدد مل سکے۔ انہوں نے علاقائی روابط کے نظام میں افغانستان کے فعال انضمام کی حمایت کی۔ اس کے ساتھ افغان عوام کے لیے انسانی امداد جاری رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان عوام کے لیے ہنگامی انسانی امداد کی فراہمی کو تیز کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی رنگ دینے کی کوششوں کی مخالفت کا بھی اعادہ کیا۔ تمام فریقوںنے دوطرفہ اور کثیرالجہتی دونوں سطحوں پر انسداد دہشت گردی تعاون کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور مختصر مدت میں اس کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کرنے کے لیے افغانستان کی حمایت کی جانی چاہیے تاکہ افغان سرزمین ہمسایہ ممالک اور اس سے باہر کی سلامتی کے لیے خطرہ کے طور پر استعمال نہ ہو۔ دہشت گردی افغانستان، خطے اور وسیع دنیا کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے بنیادی طور پر ذمہ دار ممالک پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی اقتصادی بحالی اور مستقبل کی ترقی کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کو سنجیدگی سے پورا کریں۔ انہوں نے ممالک کی جانب سے افغانستان اور پڑوسی ریاستوں میں اپنے فوجی انفراسٹرکچر کی تعیناتی کی کوششوں کو ناقابل قبول قرار دیا، کیونکہ یہ علاقائی امن اور استحکام کے مفادات کو پورا نہیں کرتا۔

اس مشترکہ اعلامیہ میں اگرچہ اصولی باتوں پر تمام رکن ممالک کے درمیان اتفاق نظر آتا ہے لیکن اگر آپ اس موقع پر مختلف ممالک کے نمائندوں کی تقاریر سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہر ایک کو خطے سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔ کسی کو خطے میں امریکی اڈے پسند نہیں ہیں، کسی کو راہداری کی ضرورت ہے، کسی کا اور مسئلہ ہے۔ ماسکو فارمیٹ کا خصوصی ایجنڈا افغانستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے پڑوسی ممالک اورر خطے کو درپیش خطرات کا تدارک تھا مگر فارمیٹ سے خطاب کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے تمام رکن ممالک کے اس مجموعی تاثر کو ماننے سے ہی انکار کردیا کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ الٹا انہوں نے نام لیے بغیر پاکستان پر داعش کو سپورٹ کرنے کا الزام لگادیا۔بلکہ انہوں نے چاروں ممالک کو ایک ساتھ رگڑا دیتے ہوئے کہا کہ ”حال ہی میں کچھ ممالک کے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان میں مختلف گروہوں کی موجودگی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے، میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کی سرزمین پر کوئی ایسا گروہ موجود نہیں جو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہو رہا ہو۔ ہم ان ممالک کے حکام سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے داخلی مسائل کی ذمہ داری خود قبول کریں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق داعش اور بعض دیگر گروہوں نے حال ہی میں خطے کے کچھ ممالک میں تربیتی اور اسلحہ ساز مراکز قائم کیے ہیں جو امارتِ اسلامیہ کے لیے باعث تشویش ہے۔ اسی طرح جب سے افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی لگائی گئی ہے، اس کے بعد خطے کے دیگر ممالک میں منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک کو اس مسئلے کی خود تحقیقات کرنی چاہیے اور مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔”

سوال یہ ہے کہ افغان حکومت کی یہی ”میں نہ مانوں” پالیسی رہی تو کیا افغانستان کو دیگر ممالک تسلیم کریں گے؟ روس نے افغان حکومت کو تسلیم کررکھا ہے اور چین نے بھی اس کے ساتھ سفارتی روابط قائم کیے ہوئے ہیں،یہ دونوں ممالک بھی خطے میں تجارت کے فروغ کی خواہش رکھنے کے باوجود افغانستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر تشویش میں مبتلا ہیں مگر طالبان حکومت ان کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ کیا اس سے افغانستان کی عالمی تنہائی میں اضافہ نہیں ہوگا؟