ملک میں حالیہ دنوں آنے والے تباہ کن سیلاب کے اثرات اب ملکی معیشت بالخصوص بیرونی تجارت پر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔سیلاب سے ہونے والے زرعی نقصانات کے نتیجے میں درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی ہوئی ہے۔معاشی اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک کے تجارتی خسارے میں 33فیصد اضافہ ہوگیا ہے جس کی بڑی وجہ سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل بتائے جاتے ہیں۔ اس عرصے میں برآمدات میں 3فیصد کی کمی نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے کیونکہ سیلاب زدہ علاقوں میں ایک وسیع رقبے پر کپاس کی فصل برباد، چاول کی فصل سیلاب کی نذر ہوچکی ہے ، لہٰذا برآمدات میں اضافے کی امید بھی اسی میں ڈوب کر رہ گئی ہے۔ وقت نکلا جا رہا ہے۔ اگلی فصل گندم کی ہونی ہے اور ابھی سے آٹا مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پنجاب کے بہت سے مقامات سے پانی اتر ہی نہیں رہا اور سندھ میں بھی صورت حال معمول پر نہیں آئی۔ دونوں صوبوں میں گندم کی فصل کی بوائی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں درآمدات 16ارب 97کروڑ ڈالر کے عدد نے معاشی حکام کو خوفزدہ کردیا ہوگا، کیونکہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کی گئی تھی۔اس کے بعد سے اب تک عالمی منڈی میں گندم کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ صرف گندم ہی نہیں اس مرتبہ تو بڑے پیمانے پر کپاس کی عالمی منڈی سے خریداری کی ضرورت درپیش ہوچکی ہے۔ برآمدات محض 7ارب 60کروڑ ڈالر پہ سارے اعداد وشمار جولائی تا ستمبر 2025ء کے ہیں جو کہ اخبارات میں شائع کیے گئے ہیں۔
خبر یہ بھی چھپی ہے کہ سیلاب نے ملک کو 3856ارب روپے کے نقصان سے دوچار کیا ہے جبکہ مزید تخمینے لگائے جارہے ہیں اور سندھ کا ڈیٹا ابھی تک موصول نہیں ہوا، کیونکہ سندھ کے بیشتر اضلاع سیلاب کی لپیٹ میں مسلسل آتے چلے جا رہے ہیں۔ سیلابی پانی مختلف گاؤں دیہاتوں گوٹھوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ کپاس کی فصل کی تباہی نے ٹیکسٹائل ملوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اب کتنی کپاس درآمد کی جائے گی؟ اس کے اعداد وشمار آیندہ مہینے سے آنا شروع ہو جائیں گے۔ ملکی کپاس کی فصل کی بجائے باہر سے کپاس منگوانے سے برآمدی مصنوعات کی مالیت میں کتنا اضافہ ہوگا؟ اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ درآمدی کپاس سے بنی مہنگی مصنوعات کو خریدنے کے لیے کوئی بیرونی خریدار تیار نہ ہوگا کیونکہ انہیں تو سستی ترین ٹیکسٹائل مصنوعات کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ بنگلادیش ویتنام وغیرہ سے بآسانی مل جاتی ہے۔ پھر وہ پاکستان سے کیوں خریدیں گے؟ حکام کہتے ہیں کہ برآمدات بڑھائیں گے کیونکہ برآمدات میں نمایاں اضافہ ہی معاشی استحکام کی کنجی ہے مگربرآمدات میں اضافہ اب کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ ہماری برآمدات میں زیادہ تر حصہ زرعی پیدوار کا ہے اور سیلاب ہماری پیداوار کا ایک بڑا حصہ بہاکر لے گیا ہے۔ کپاس کی فصلیں جوکہ برآمدات میں بہار لانے کا ذریعہ تھیں، ٹیکسٹائل ملوں کو آباد کیا کرتی تھیں، آج ان فصلوں کو اور چاول کی کھیتوں کو بھارت سے آئے ہوئے 20فٹ 30فٹ بلند لہروں نے اکھاڑ پھینکا ہے۔ ان سیلابی ریلوں نے ہماری برآمدات کو اب سکیڑنا شروع کردیا ہے۔ معاملہ صرف کپاس کا نہیں ہے۔خدشہ یہ ہے کہ چاول کی برآمدات میں بھی کمی ہوگی۔ممکن ہے کہ ہمیں اناج کے لیے بھی دیگر ممالک سے رابطہ کرنا پڑجائے۔اس سے ہماری درآمدات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث مجبوری میں اشیاء خوراک کی درآمد کی ضرورت سے تواختلاف نہیں کیا جاسکتا تاہم ہمیں اپنی مجموعی درآمدات کی خبر لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پہلے ہی درآمدات کا حجم زیادہ ہے۔اس میں کمی لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں موبائل فون کی درآمد بہت بڑھ چکی ہے حالانکہ یہ اب مقامی سطح پر بنائے جاسکتے ہیں۔ دیگر بہت سی غیر ضروری آئٹمز کی درآمدات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دودھ اور اس سے بنی اشیاء اور خصوصاً قیمتی گاڑیاں اور بہت سی آرائشی و نمائشی چیزیں۔ غیر ضروری درآمدات کا راستہ روک کر ہی کپاس اورگندم کی درآمد کے امکانات غور کیا جانا چاہیے۔ اگر حکام نے فوری طور پر اقدامات نہ کیے، صوبائی حکومتوں نے آیندہ آنے والی فصلوں کی تیاری کے لیے زمین سے پانی کا قبضہ نہ چھڑایا، 50لاکھ متاثرین کی مدد کا فوری بندوبست نہ ہوا تو ایسی صورت میں بیرونی تجارت کی صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے منصوبوں کا فوری آغاز کریں۔ نہروں کی مرمت کی جائے۔ جو بند ٹوٹ گئے ہیں اُن کی مرمت، پل سڑکیں ان کی فوی تعمیر تاکہ ذرائع آمد و رفت کو مکمل طور پر بحال کیا جاسکے۔ آیندہ فصلوں کی بوائی کے لیے زرعی ریسرچ اور ایسی اقسام بھی لانے کی ضرورت ہوگی جو کہ سیلابی پانی کے ٹھہرنے کے باعث پیدا ہونے والی نمی کو برداشت کرسکیں۔ کسانوں کو اعتماد فراہم کرنا، گندم کی نئی قیمت اور اس کی خریداری’ اور سب سے بڑھ کر پورا بھروسا کسانوں کو دینا ہوگا۔ 2024ء مئی میں کسان ان کی فصل کی سرکاری خریداری کی قیمت والی رقم نہ ملنے کے باعث سخت ترین مایوسی کا شکار ہوکر رہ گئے تھے اور وہ کئی مارکیٹوں میں گندم کے بیوپاریوں کو مجبوراً انتہائی کم قیمت پر گندم فروخت کرتے رہ گئے۔ لہٰذا کسانوں کو اعتماد دینا ہوگا۔
سیلاب سے جو نقصان ہوا اُس کے اندازے ابھی لگائے جاتے رہیں گے۔ اس وقت نقصان کا ابتدائی تخمینہ 4ہزار ارب روپے کا ہے۔ اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن پاکستان کی حکومت جن امیدوں پر قائم ہے وہ برآمدات میں اضافے کی بنیاد پر معاشی استحکام کا حصول ہے۔ بیرون ملک سے ترسیلات زر جو کہ 38ارب ڈالر نوٹ کیا گیا تھا، اس میں اضافے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مہنگائی میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ پنجاب میں سیلاب زدہ علاقوں میں ابھی تک تعمیراتی سرگرمیوں کا آغاز نہیں ہوسکا۔ بعض علاقوں میں پانی اترنے کے باوجود لوگ ابھی تک خیمہ زن ہوکر بیٹھے ہیں۔ ان سب کی آبادکاری ایک صبر آزما اور طویل مدت اور زیادہ سے زیادہ مالیات طلب کرنے والا مرحلہ ہوگا۔ فی الحال صوبائی حکومت ایمرجنسی کی پلاننگ میں مصروف ہے۔ سیلاب زدگان کی مستقل آبادکاری اور آیندہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بھی پلاننگ کی ضرورت ہے۔
اِن تمام امور پر توجہ دینے کے لیے صوبائی حکومت، مقامی حکومت، وفاقی حکومت اور متاثرین کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسائل کا اور خاص طور پر عالمی موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ جو کہ پاکستان جیسے مالی طور پر کمزور ترین ملک کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، کا نتیجہ خیز حل نکالا جاسکے۔

