گزشتہ سے پیوستہ:
قارون کے خزانوں کی صورت یہ تھی کہ اس کے خزانوں کی چابیاں اٹھاتے ہوئے بھی نوجوانوں کا مضبوط گروہ تھک جایا کرتا تھا۔ خزانے تو خزانے ہیں۔مضبوط نوجوان خزانوں کی چابیاں اٹھاتے ہوئے بھی تھک جایا کرتے تھے۔ لیکن اس کا مکالمہ قوم کے ساتھ، وہ پڑھنے کا ہے۔ قوم کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ قوم کی بات اللہ پاک نے بیان کی ہے۔ جو اللہ پاک نے قارون کو قوم کے ذریعے، بنی اسرائیل کے ذریعے، مال، اسباب، معیشت کی SOPsبیان کی ہیں۔ وہ عرض کرتا ہوں۔ ”اذ قال لہ قومہ لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین” قوم نے قارون سے کہا جناب ٹھیک ہے آپ کے پاس پیسے ہیں، اکڑو نہیں، اِتراؤ نہیں، اپنے مال پہ فخر نہیں کرو، اللہ کی دین ہے۔ پہلی بات بنی اسرائیل قوم نے قارون سے کیا کہی؟ ”لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین” اپنے مال پہ اترانا، میرے پاس یہ ہے، میرے پاس یہ ہے، یہ نہیں کرو، اللہ پاک کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ یہ پہلی بات۔ دوسری بات:”وابتغ فیما اتاک اللہ الدار الاٰخرة” یہ مال صرف دنیا کے لیے نہیں آخرت کے لیے بھی ہے۔ یہ مال صرف دنیا میں خرچ کرنے کے لیے نہیں ہے، آخرت کی تیاری بھی اسی مال سے کرنی ہے۔ اپنے مال کے ساتھ دارِ آخرت کی کامیابی تلاش کرو۔ گویا اس مال کو دنیا کی ضروریات کے لیے بھی استعمال کرو، اور آخرت کی تیاری کے لیے بھی یہی مال کام آئے گا۔ یہ دوسری بات۔ اور فرمایا ”ولا تنس نصیبک من الدنیا” دنیا کا حصہ بھی بھولو نہیں، دنیا کا بھی حصہ ہے۔ قرآن پاک نے تو ہمیں تعلیم ہی یہ دی ”ربنآ اٰتنا فی الدنیا حسنہ وفی الاٰخرة حسنة وقنا عذاب النار” (البقرہ) دین کے لیے دنیا کی نفی نہیں، دنیا کے لیے دین کی نفی نہیں۔ دنیا کے لیے آخرت کی نفی نہیں، اور آخرت کے لیے دنیا کی نفی نہیں۔ دنیا کا اپنا مقام ہے، آخرت کا اپنا مقام ہے، دونوں میں ”حسنہ” چاہیے ہمیں۔ ہمیں تعلیم کیا دی ہے؟ ”ربنآ اٰتنا فی الدنیا حسنة وفی الاٰخرة حسنة وقنا عذاب النار”۔ یہ سب سے مختصر، سب سے جامع دعا ہے۔
اور موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی جب اللہ پاک سے درخواست کی تھی، ایک درخواست قرآن پاک میں ہے ”واکتب لنا فی ھٰذہ الدنیا حسنة وفی الاٰخرة انا ھدنا الیک” (الاعراف) موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے یہی کہا، یا اللہ! ہمارے لیے لکھ دے، دنیا میں بھی حسنہ لکھ دے، آخرت میں بھی لکھ دے۔
اور اس کی ایک جھلک صرف کہ محروم کسے کہتے ہیں۔ سائل تو اپنی ضرورت بیان کر دیتا ہے نا جی۔ محروم بیچارہ اندر اندر کڑھتا رہتا ہے۔ اس محروم کو آج کل کیا کہا جاتا ہے؟ ”سفید پوش”۔ ظاہری حالت بالکل ٹھیک ٹھاک ہے، اندر کا حال وہ جانتا ہے یا خدا جانتا ہے، اندر کیا ہو رہا ہے غریب کے ساتھ۔ اس کا حق۔ اس پر بیسیوں روایات میں سے ایک روایت عرض کرتا ہوں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا فرمایا وہ آدمی مومن نہیں ہے جو خود پیٹ بھر کے رات گزارے، پڑوسی پڑوس میں بھوکا سویا ہے اور اِس کو پتہ ہے اس کا۔ شرم کے مارے مانگا نہیں اس نے، بھوکے رات گزار دی ہے۔ اِس کو پتہ ہے کہ میرے پڑوس کا حال کیا ہے۔ تو یہ اللہ پاک نے اس کو کیا قرار دیا؟ بنی اسرائیل نے قارون کو کیا کہا؟ ”احسن کما احسن اللہ الیک”۔ یہ مال اللہ کا احسان ہے۔ کسی نے گارنٹی سے لیا ہے؟ یا کسی کو اپنی طلب میں ملتا ہے؟ اس کی تقسیم ہے۔ ”واللہ فضل بعضکم علیٰ بعض فی الرزق” (النحل) یہ رزق کی درجہ بندی، وہ کہتا ہے میری مرضی ہے، جس کو کم دوں، جس کو زیادہ دوں۔ تمہیں چیک کرنے کے لیے کہ جن کو دیا ہے وہ نا رکھنے والوں کو دیتے ہیں کہ نہیں دیتے، ان کا حق ادا کرتے ہیں کہ نہیں کرتے۔
پانچویں بات، قارون سے قوم کی بات نقل کر رہا ہوں میں۔ ”ولا تبغ الفساد فی الارض”۔ تمہاری دولت معاشرے میں خرابی اور فساد کا باعث نہیں بننی چاہیے۔ تمہاری دولت کی وجہ سے معاشرے میں خرابی نہیں آنی چاہیے، فساد نہیں آنا چاہیے۔ تم دولت کی نمائش کرو گے، غریب لوگ تنگ ہوں گے۔ چھوٹی سی ایک، ہلکی سی مثال۔ بڑا لمبا موضوع ہے یہ، میں تو خلاصہ کر رہا ہوں۔ تمہاری دولت دوسروں کے لیے فساد کا باعث کیسے بنتی ہے، اس کی ایک ہلکی سی جھلک۔جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ تمہیں گھر میں اللہ پاک نے توفیق دی، پھل ول لائے ہو، بچوں کو کھلایا پلایا، حق ہے بچوں کا۔ چھلکے دروازے سے باہر گلی میں مت پھینکو۔ گھر میں پھل کھایا ہے، بچوں کو کھلایا ہے، ٹھیک ہے، بچوں کا بھی حق ہے، تمہارا بھی حق ہے۔ لیکن چھلکے باہر گلی میں مت پھینکو۔ کیوں؟ پڑوسی کے بچے چھلکا دیکھ کر گھر والوں سے ماں باپ سے پھل کی ضد کریں گے، وہ لانے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ فساد کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔پڑوسی کو دیکھ کر پڑوسی کے بچے ماں باپ سے کچھ تقاضا کریں گے۔ وہ پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کیا کرے گا؟ یا اِن پر جبر کرے گا، یا حرام کمائے گا۔
یہ میں نے دو باتیں عرض کی ہیں۔ اللہ کے پیغمبر کی زبان سے اور ایک قوم کی زبان سے۔ شعیب علیہ السلام نے کیا کہا تھا؟ ماپ تول پورا کرو، دو نمبر مال نہیں بیچو، معیشت میں خرابی پیدا نہیں کرو اور قومِ موسیٰ نے، بنی اسرائیل کی قوم نے قارون سے کیا کہا تھا؟ پانچ باتیں پھر دہرا دیتا ہوں۔ کیا فرمایا تھا؟
(١) ”لا تفرح”۔ اتراؤ نہیں۔ نمائش نہیں کرو۔ یہ نمائش کیا ہے؟ اترانا ہے۔ نمائش نہیں کرو دولت کی کہ لوگوں کے لیے مصیبت کا باعث بنے۔
(٢) ”وابتغ فی ما اٰتک اللہ الدار الاٰخرة”۔ اس مال کے ذریعے آخرت صحیح کرو اپنی۔
(٣) ”ولا تنس نصیبک من الدنیا”۔ دنیا میں بھی اپنا حصہ سیدھا رکھو، اس سے انکار نہیں ہے۔ کھاؤ پیو۔ یہ بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے۔ ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ یہ مال دنیا کے لیے بھی ہے، دنیا کی بہتری کے لیے بھی، اس سے بھی منع نہیں کیا، بلکہ ترغیب دی ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے سے ایک آدمی گزرا۔ میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، بال بکھرے ہوئے، میل جمی ہوئی، برا حال، جیسے کئی دن سے نہایا نہیں ہے، کئی ہفتوں سے کپڑے نہیں بدلے۔ بلایا۔ کون ہو؟ میں فلاں ہوں۔ او خدا کے بندے! اتنی توفیق بھی نہیں ہے کہ ایک درہم کا تیل خریدو، نہاؤ دھو، تیل ملو، بال سیدھے کرو یار، اپنی شکل سیدھی کرو، کپڑے دھو لو۔ اتنی توفیق بھی نہیں؟ یا رسول اللہ! کیا فرما رہے ہیں آپ۔ میرے پاس تو اتنے سو اونٹ ہیں، میں کھاتا پیتا آدمی ہوں، ٹھیک ٹھاک بندہ ہوں۔ اونٹوں کا مالک ہوں، بکریوں کا مالک ہوں، باغات کا مالک ہوں، میں کھاتا پیتا آدمی ہوں۔ حضور نے ایک جملہ فرمایا ”اللہ پاک نے تجھ پر احسان کیا ہے نا، تو اللہ کی نعمتیں تجھ پر نظر بھی آنی چاہئیں۔” اس کے اثرات تجھ پر نظر آنے چاہئیں، یار ٹھیک ٹھاک رہو، پتہ چلے لوگوں کو اللہ پاک نے اس پر بڑا احسان کیا ہے لیکن احسان کے اظہار کی حد تک۔ دوسروں پر رعب جمانے کے لیے نہیں۔ کیا فرمایا ”ولا تنس نصیبک من الدنیا”۔
(٤) اور چوتھی بات کیا فرمائی؟ ”احسن کما احسن اللہ الیک”۔ اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے، اس نے لوگوں کا حق رکھا ہے، وہ ادا کرو، لوگوں کو بھی دو، خرچ کرو۔
(٥) اور ”ولا تبغ الفساد فی الارض”۔ سوچ سمجھ کر خرچ کرو۔ تمہارا دولت کا خرچ کرنا معاشرے میں فساد کے لیے خرابی کے لیے ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ اس سے لوگوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، لوگوں کے لیے کوئی تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
تو یہ معیشت ہمیشہ آسمانی مذاہب کا موضوع رہی ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کا موضوع رہی ہے۔ اور انبیاء کرام جہاں عبادت کی بات کرتے رہے ہیں، توحید کی بات کرتے رہے ہیں، وہاں معیشت کی بات بھی کی ہے، خاندان کی بات بھی کی ہے، تجارت کی بات بھی کی ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی عملی زندگی کا آغاز ہی تجارت سے کیا تھا۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا قافلہ لے کر گئے تھے شام۔ حضور کی پریکٹیکل لائف کا آغاز کہاں سے ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

