سات اکتوبر 2025کو مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کو دو برس مکمل ہو جائیں گے۔ غزہ کو خون میں ڈبونے کے بعد اب بندوق کی نوک پر ٹرمپ کا نام نہاد 20نکاتی امن فارمولا سامنے آیا ہے۔ آخریہ پلان کیا ہے؟ یعنی اب عالمی سامراج فلسطینیوں کو ختم کر کے بے دخل کر کے مسئلہ فلسطین کو تابوت میں بند کر کے آخری کیل ٹھونک کر ہمیشہ کیلئے دفن کر دینا چاہتا ہے۔ انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کیلئے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک غزہ میں اپنی امن فورسز بھیجیں گے یا نہیں؟ مسلم ملکوں نے اس پیس پلان کی حمایت کی اس کا مطلب کیا ہے؟ ٹرمپ نے جو فلسطین پر انٹرنیشنل اتھارٹی اور ایک بین الاقوامی انتظامیہ قائم کرنے کی بات کی ہے جو اعلی ترین سیاسی قانونی اتھارٹی کے طور کے پر کام کرے گی، فلسطینی اتھارٹی اور محمود عباس کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ حماس کو اپنے ہتھیار ڈال دینے ہوں گے اور اس کے ارکان کو عام معافی دی جائے گی بشرطیکہ وہ پرامن بقائے باہمی کا عہد کریں۔ یعنی غاصب صہیونی ریاست کو تسلیم کریں، آزاد فلسطین سے ہمیشہ کیلئے دستبردار ہو جائیں، غزہ کو ٹرمپ کے حوالے کر دیں، مغربی اردن یعنی ویسٹ بینک کا ذکر تک نہ کریں۔ واضح رہے مشرقِ وسطی میں فلسطین کا مسئلہ صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی امن و سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔
1917 میں بالفور اعلامیہ میں پہلی بار فلسطینی عوام کی زمین پر یہودی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کا تقسیم منصوبہ 1947آیا تو فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا مگر فلسطینی عوام اس تقسیم کو کبھی قبول نہیں کیا۔ 1967کی جنگ میں اسرائیل نے نہ صرف غزہ اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا بلکہ بیت المقدس کو بھی اپنی عملداری میں لے لیا۔ یہی وہ جنگ ہے جس کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بحران پیدا ہوا جبکہ حالیہ صہیونی سفاکیت و درندگی کے نتیجے میں 60ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہیں اور اقوام متحدہ کے ریلیف ادارے (UNRWA) کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غزہ میں صحت کا نظام تقریباً تباہ ہو چکا ہے، اسپتالوں میں دوائیں اور بجلی تک ناپید ہیں۔ اقوام متحدہ نے اب تک فلسطین کے حق میں 50سے زائد قرار دادیں منظور کی ہیں لیکن بیشتر پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ امریکا اور یورپ اکثر اسرائیلی اقدامات کی مذمت تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر اسرائیل کو عسکری اور معاشی امداد فراہم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لاطینی امریکا افریقہ اور ایشیا کے متعدد ممالک کھل کر فلسطین کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ بعض مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں (ابراہیم معاہدے کے تحت) جبکہ عوامی سطح پر شدید مخالفت موجود ہے۔ افسوس! اسلامی تعاون تنظیم کے وجود کے باوجود فلسطین کو وہ حمایت نہیں مل سکی جس کی اس کو ضرورت تھی۔
بلاشبہ فلسطین کے مسئلے نے مسلم دنیا میں سیاسی وحدت کی ضرورت کو اور زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ اسی تناظر میں اہمیت کا حامل ہے۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا مذکورہ دفاعی معاہدے کا اصل مقصد خطے میں اسرائیل کے خطرے کو روکنا ہے اور اب ٹرمپ کے امن منصوبے کی سعودی عرب و دیگر مسلم ملکوں کی جانب سے حمایت و تو ثیق کے اس معاہدے پر کیا اثرات مر تب ہوں گے؟ جبکہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے فلسطین کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح کی پالیسی سے انحراف کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ اس میں دو آرا نہیں کہ بھارت کو پاکستان سے حالیہ جنگ میں پسپائی کے بعد اس معاہدے کی شکل میں دوسرا بڑا جھٹکا لگا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قطر میں اسرائیلی کارروائی کے بعد کسی خلیجی ریاست کی جانب سے یہ پہلا بڑا دفاعی ردعمل ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے امریکا کے تئیں خلیجی ممالک کے خدشات کو ہوا دی اور انہیں اپنا دفاع کرنے کیلئے امریکا سے منہ موڑنے پر مجبور کر دیا۔ صدر ٹرمپ کا زبانی جمع خرچ عرب ممالک کا اعتماد بحال نہیں کر سکا۔ امریکا کو اس حملے کا علم تھا۔ نہ صرف امریکا بلکہ بھارت نے بھی عربوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن اب پاکستان کی صورت میں انہوں نے باہمی اتحاد کے ساتھ اس مجبوری سے نجات حاصل کر نے کا نسخہ کیمیا ڈھونڈ لیا ہے۔ آپریشن بنیان مر صوص میں پاکستان نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ اپنا دفاع یقینی بنانا جانتا ہے۔ ایران کے ساتھ کھڑے ہو کر بھی ثابت کر دیا کہ وہ برادر مسلم ممالک کو تنہا نہیں چھوڑے گا جس سے عالمی سطح پر اور عرب دنیا میں پاکستان کی فوجی صلاحیت پر اعتماد بڑھا ہے اور یہ طاقت کے علاقائی توازن میں ایک بڑی تبدیلی کا آغاز کر سکتا ہے کیونکہ جیسے ہی مشرق وسطی میں پاکستان کا عمل دخل بڑھے گا یقینا یورپ اور امریکی اسلحہ سازوں کی ہوا اکھڑتی نظر آرہی ہے۔ بلاشبہ دفاعی معاہدہ مشرق وسطی کی سلامتی میں پاکستان کے کردار کیلئے ایک پلس ہے جس کا سہرا دو اہم فیصلہ سازوں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان کے سر ہے جو مسلم اصلاحات پسند رہنما ہیں اور اپنے ملک کو تیزی سے تبدیلی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں جس طرح ڈینگ شیا پنگ نے چین کیلئے کیا تھا۔ محمد بن سلمان کنگ فیصل کے بعد سعودی عرب کے سب سے اہم رہنما ثابت ہوئے ہیں۔
مشرق وسطی کے بدلتے جغرافیائی سیاسی منظرنامے گریٹر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے خطرے اور امریکی دفاعی ضمانتوں پر اعتماد کے فقدان نے سعودی عرب کے ساتھ اس معاہدے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ معاہدہ تاریخی طور پر اس لیے بھی اہم ہے کہ 50سال بعد پاکستان دوبارہ مشرق وسطی میں اہم کردار کی واپسی سمیت مسلم دنیا کی سب سے اہم ریاست سعودی عرب کیلئے دفاع فراہم کرنے والے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ فلسطین ایران لبنان شام اور یمن کے بعد قطر چھٹا اسلامی ملک ہے جس کے خلاف اسرائیل نے جارحیت کی۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اسرائیل گریٹر اسرائیل کی منصوبہ بندی کے تحت خطے میں اپنی بالادستی فوجی طاقت کے ذریعے مسلط کرنا چاہتا ہے۔ قطر پر حملہ مشرق وسطی کی سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا کیونکہ خطے میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ قطر میں ہے اور امریکا نے قطر کے دفاع کو اپنی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی کے ذریعے تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔ اس سے یہ عندیہ ملا کہ امریکا اب خطے میں دوستانہ مسلم ممالک کا محافظ نہیں رہا؛ چنانچہ اس صورتحال میں اب خطے کے مسلم ممالک نے نئے دفاعی آپشنز تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں اور پاکستان کے مسلم ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے پاکستان ایک قابلِ عمل متبادل کے طور پر ابھرا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر موثر تحفظ فراہم کر سکے۔ اس معاہدے کی اہم شق یہ ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا اور دونوں مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ یہ نیٹو کے آرٹیکل پانچ سے مطابقت رکھتا ہے جس کے مطابق کسی ایک پر حملہ نیٹو پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ دراصل یہ مسلم ممالک کے نیٹو جیسے اتحاد کی جانب بڑی پیشرفت ہے۔ مصر سے لے کر ایران تک مسلم فوجی یکجہتی کی بنیاد کے طور پر اس معاہدے کا خیرمقدم کیا اور اسے ایک جامع علاقائی دفاعی نظام کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا۔ الحمدللہ! پاکستان ایک نئی قوت کے طور پر ابھرا ہے جو یقینی طور پر ہماری عسکری و سفارتی کامیابی کا اہم سنگ میل ثابت ہوا ہے۔

