ادب انسان کی وہ صفت ہے جو اسے حیوانیت سے ممتاز کرتی ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جس سے انسان کا اخلاق سنورتا ہے، اور اس کی شخصیت میں نرمی، حلم اور وقار پیدا ہوتا ہے۔ اسلام نے ادب کو محض ایک سماجی تہذیب نہیں، بلکہ ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم ہمیں ہر مقام پر حسنِ قول، حسنِ سلوک اور حسنِ نیت کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری بعثت کا ایک مقصد اخلاقِ حسنہ اور نیکی کے اعلیٰ معیار کی تکمیل ہے۔ (الادب المفرد) اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں اخلاق کی اہمیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کا زندہ نمونہ تھے جنہیں وہ دنیا میں رائج کرنے آئے تھے۔ یہی وہ تعلیم ہے جس نے ایک غیر مہذب عرب قوم کو دنیا کی سب سے مہذب امت بنا دیا۔
اسلامی تہذیب میں ادب کی وسعت حیران کن ہے۔ یہ محض بات چیت کے آداب یا کھانے پینے کے اصول نہیں بلکہ ادبِ گفتار، ادبِ خاموشی، ادبِ نگاہ، ادبِ برتاؤ، ادبِ نصیحت، ادبِ خدمت اور ادبِ وفا جیسے بے شمار پہلوؤں پر محیط ہے۔ یہی وہ اقدار ہیں جو انسان کو محبوب بناتی ہیں۔ اگر یہ اوصاف کسی کے اندر ہوں تو وہ قابل ستائش اور باعثِ فخر ہوتا ہے اور اگر ان سے خالی ہو تو وہ خواہ کتنا ہی عالم یا عابد کیوں نہ ہو، معاشرے میں ناپسندیدہ بن جاتا ہے۔ افسوس آج علم جتنا بڑھتا جا رہا ہے اتنا ہی ادب گھٹتا جا رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے علم تو دے رہے ہیں مگر کردار سازی کے پہلو پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہے۔ خاص طور پر دینی مدارس میں، جہاں سے اخلاق و کردار کے روشن نمونے ابھرنے چاہئیں، وہاں بعض مقامات پر اس پہلو کی کمزوری خطرناک حد تک تشویشناک ہے۔ حال ہی میں وفاق المدارس نے ایک فیصلہ کیا کہ جو طالب علم داڑھی منڈوائے یا کاٹے گا، اسے امتحان دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ فیصلہ اپنی جگہ قابلِ احترام ہے۔ ہر ادارے کو اپنے ضوابط لاگو کرنے کا حق ہے۔ برصغیر کے مدارس کا تو یہ امتیاز بھی ہے کہ یہاں اب تک اسلامی وضع قطع محفوظ ہے۔ افسوس مگر اس بات کا ہے کہ داڑھی کے مسئلے سے بڑھ کر اخلاقیات کا مسئلہ زیادہ سنگین ہو چکا ہے۔ داڑھی انسان کا ذاتی فعل جبکہ اخلاقیات کا اثر پورے معاشرے پر براہ راست پڑتا ہے۔ تو کیا اس طرف وفاق کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں؟
ایک اور بہترین اعلان یہ کیا گیا کہ نفاذ شریعت کے نام پر حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ بہت خوب۔ سوال مگر یہاں بھی یہ ہے کہ کیا مدارس سے فارغ ہونے والے ہر فاضل کی سوچ بھی یہی ہے؟ بعض بیانات، تحریروں اور کمنٹس کو دیکھ کر بظاہر ایسا تو نہیں لگتا۔ تو کیا وفاق کو اس طرف توجہ دینے کی زیادہ ضرورت نہیں؟ کیونکہ اگر انتہاپسندی کی آگ کو پوری طرح نہیں بجھایا گیا تو کہیں بھی چنگاری بھڑک سکتی ہے۔ یہ نہ صرف یہ کہ مدارس کے وجود کے لیے خطرناک ہے بلکہ ملکی سالمیت کے لیے بھی خطرہ ہے۔ مدارس کے بعض فارغ التحصیل طلبہ سوشل میڈیا پر جو طرزِ گفتگو اختیار کر رہے ہیں، وہ نہ صرف بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ دینی تربیت پر سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتا ہے۔ اختلافِ رائے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے، لیکن اختلاف کے نام پر الزامات، طنز اور گالی گلوچ کا دروازہ کھول دینا دین کی روح کے منافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مؤمن نہ طعنہ دینے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش گو، نہ بدزبان۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوان آج ان ہی اوصاف کو حق گوئی یا جرات کا نام دے کر رواج دے رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ادب ہمیشہ علم سے مقدم رہا ہے۔ امام مالک فرمایا کرتے تھے: میرے استاد ربیعہ الرای مجھے علم سے پہلے ادب سکھاتے تھے۔ اسی طرح امام بخاری نے ”الادب المفرد” کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی، جس میں روزمرہ زندگی کے ہر گوشے میں ادب کے اصول بیان کیے ہیں۔
حدیث کی تقریبا تمام کتابوں میں ادب اور اخلاق کے حوالے سے مستقل ابواب قائم کیے گیے ہیں۔ گویا علم وہ شمع ہے جو ذہن کو روشن کرتی ہے، اور ادب وہ خوشبو ہے جو دل کو معطر کرتی ہے۔ اگر شمع ہو مگر خوشبو نہ ہو تو روشنی چبھنے لگتی ہے، اور یہی حال اس علم کا ہے جو تکبر، تندی اور بے ادبی کے ساتھ ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے مدارس و جامعات اپنے نصاب میں ”اخلاقی تربیت” کو رسمی عنوان سے نہیں، بلکہ زندہ مثالوں کے ذریعے شامل کریں۔ اساتذہ اپنے کردار سے، گفتگو سے، طلبہ کے دلوں میں ادب کی وہ حرارت پیدا کریں جو صرف کتابوں سے نہیں آتی۔ کیونکہ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن ادب سے بہتر کسی باپ نے اپنے بیٹے کو تحفہ نہیں دیا۔ (ترمذی)
یہ بات صرف گھر کے لیے نہیں بلکہ ہر تربیتی ادارے کے لیے بھی سچ ہے۔ آج جب معاشرتی سطح پر عدم برداشت انتہا کو پہنچ چکی ہے، ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ”ادبِ اختلاف” کی ہے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ کسی کی بات کو رد کرنا گناہ نہیں، مگر کسی کی تذلیل کرنا اخلاقی جرم ہے۔ جس معاشرے میں اختلاف برداشت نہیں کیا جاتا، وہاں مکالمہ مر جاتا ہے اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔ اسلام نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ ادب صرف بڑوں کے ساتھ نہیں، چھوٹوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز میں بولنے سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں ان کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں۔ آج ہم اپنے اکابر، اساتذہ، اور علماء پر کھلے عام تنقید نہیں بلکہ تہمت لگاتے ہیں اور اسے دلیل سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ رویہ علم کی حرمت کو پامال کر رہا ہے۔ قرآن کریم کا بڑا واضح پیغام ہے کہ جس بات کا تمہیں علم نہ ہو، اسے سچ سمجھ کر اس کے پیچھے مت پڑو۔ یقین رکھو کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (اسراء 36) مگر افسوس کہ ہم ہر بات پر اپنی رائے دہی کو ضروری سمجھتے ہیں۔
اگر ہمارے مدارس کے طلبہ اور فارغ التحصیل فضلاء علم کے ساتھ ادب کو اپنا شعار بنا لیں تو وہ نہ صرف دینی قیادت کے اہل ہوں گے بلکہ سماجی سطح پر بھی اصلاح کے مؤثر کردار ادا کر سکیں گے۔ اس کے برعکس اگر ان کے لہجے میں غصہ، لب و لہجے میں تمسخر، اور سوچ میں خود پسندی آگئی تو وہ علم کے خادم نہیں، اس کے دشمن بن جائیں گے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں علماء کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود صلاح کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ مت بھولیے گا کہ ادب ہی وہ روشنی ہے جو علم کو جمال بخشتی ہے۔ علم بغیر ادب کے ایسا ہے جیسے درخت بغیر پھل کے، یا پھول بغیر خوشبو کے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اداروں میں، اپنے گھروں میں، اپنی مجالس میں، ہر جگہ ادب کے چراغ دوبارہ روشن کریں، کیونکہ جب علم سے ادب رخصت ہو جاتا ہے، تو علم رحمت نہیں زحمت بن جاتا ہے۔

