آنکھ بند کرکے امریکی منصوبے کی حمایت درست نہیں!

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ امن منصوبے کی حمایت کے اعلان پر حکومت کو عوامی اور سیاسی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے جب کہ حکومت نے تنقید مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست کیلئے غزہ معاہدے کی مخالفت کی جا رہی ہے، کیا مخالفین چاہتے ہیں کہ معصوم فلسطینیوں کا خون بہتا رہے؟

غزہ کی سرزمین پر جاری اس بدترین خونی کھیل کو دو برس مکمل ہونے والے ہیں۔ اس عرصے میں اسرائیل نے ظلم و سفاکیت کے وہ تمام حربے آزما لیے ہیں جن کی مثال دنیا کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ ہزاروں معصوم بچے، عورتیں اور بزرگ شہید کر دیے گئے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، پوری پٹی کو کھنڈر بنا دیا گیا، غزہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، لیکن اس سب کے باوجود اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ فلسطینی عوام کی ایمانی طاقت اور حوصلہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جیسا سات اکتوبر 2023ء سے پہلے تھا۔ اسرائیل تمام تر ظلم و سفاکیت کے باوجود حماس کو ختم کرسکا اور نہ ہی تحریک مزاحمت کے آہنی چنگل سے اپنے قیدی چھڑوا سکا ہے۔ اسرائیل نے تباہ کن بموں کی وحشیانہ بارش کے دوران اس بات کی بھی پوری پوری کوشش کی کہ فلسطینی غزہ خالی کردیں اور اجتماعی ہجرت کرکے شہر اس کیلئے خالی کردیں، مگر انسانی تاریخ کا بدترین ظلم روا رکھنے کے باوجود ان تمام مقاصد میں آج دو سال گزرنے کے بعد بھی اسرائیل کو بدترین ناکامی کا سامنا ہے۔ میدان جنگ میں یہ ناکامی اسرائیل کیلئے سوہانِ روح بن گئی ہے اور اب وہ سفارتکاری کے پردے میں اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیس نِکاتی منصوبے کو ڈھال بنا رہا ہے۔اس منصوبے کو بظاہر امن کا عنوان دیا گیا ہے لیکن اس کے اندرونی نِکات کھول کر دیکھے جائیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک یکطرفہ اور مکمل غیر منصفانہ منصوبہ بلکہ سازش ہے۔ اس میں فلسطینی فریق بالخصوص حماس کے کسی مطالبے کو بھی شامل نہیں کیا گیا جبکہ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کا اصل اور براہِ راست فریق غزہ کے عوام اور ان کی نمائندہ مزاحمتی تحریکیں ہیں۔ اگر ان کی رائے کو شامل کیے بغیر کوئی فیصلہ مسلط کیا جاتا ہے تو وہ پائیدار امن کا فارمولا ہرگز نہیں ہو سکتا، بلکہ جلد مزید خونریزی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ یہ فلسطینی تحریک مزاحمت کو ختم کرنے کا بہانہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں جان بوجھ کر پرنالہ اسرائیل کے صحن کی طرف ہی رکھا گیا ہے، تاکہ حماس مخالفت کرے تو سارا ملبہ اس پر ڈال کر دنیا کی حمایت حاصل کرکے حماس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے اور اسرائیل کی خاک میں رلتی ہوئی ساکھ کو بچایا جائے۔

ایک ایسے یکطرفہ اور غیر منصفانہ منصوبے کی پاکستان کی جانب سے اندھی حمایت پوری قوم کیلئے بجا طور پر حیرت و استعجاب کا باعث ہے۔ قوم حیران ہے کہ جس وزیر اعظم نے کل جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں بہت ہی واضح، مدلل اور دوٹوک موقف ظاہر کیا تھا، وہ آج اس مکمل طور پر اسرائیل نواز منصوبے کی حمایت کیسے کر سکتا ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے زیادہ تعجب انگیز امر یہ ہے کہ وزیر اعظم نے وزیراعظم نے کسی قومی مشاورت یا پارلیمانی بحث کے بغیر فوری طور پر امریکی منصوبے کی حمایت کا اعلان کیسے کر دیا؟ یہ طرزِ عمل جمہوری اقدار اور پارلیمانی روایات کے صریحاً خلاف ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے، جس میں وزیر اعظم بادشاہ کی طرح مطلق العنان اور کوئی بھی فیصلہ کرنے کیلئے آزاد نہیں ہوتا، بلکہ وہ کسی بھی اقدام کیلئے پارلیمان کی اجازت کا محتاج ہوتا ہے، مگر ٹرمپ کی جانب سے اس مبینہ امن منصوبے کا اعلان سامنے آتے ہی وزیر اعظم پاکستان نے تمام جمہوری اصولوں اور ملکی آئین و دستور کی رہنمائی کو پس پشت ڈال کر اس کی حمایت کا اعلان کردیا۔ خارجہ پالیسی سے جڑا کوئی بھی معاملہ خصوصاً ایسے حساس اور تاریخی مسئلے پر فیصلہ کرنے کیلئے قوم کو اعتماد میں لینا ناگزیر ہے۔ جب ایک طرف عوامی سطح پر اسرائیل و امریکا کے ظالمانہ طرز عمل کیخلاف غم و غصہ موجود ہو اور دوسری طرف سیاسی و دینی جماعتیں اس منصوبے کو اسرائیل کے حق میں اور فلسطین کے خلاف سمجھتی ہوں، ایسے میں وزیراعظم کا یکطرفہ فیصلہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ فلسطین صرف ایک جغرافیائی یا سیاسی تنازع نہیں بلکہ مذہبی، تاریخی اور انسانی مسئلہ ہے۔ یہ پوری امتِ مسلمہ کے ضمیر سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ پاکستان کے عوام اس مسئلے پر ہمیشہ ایک موقف پر متفق رہے ہیں کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور فلسطین کا حق ہے کہ اسے مکمل آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ اس اصولی موقف کو نظر انداز کر کے کسی مسلط شدہ منصوبے کی حمایت دراصل فلسطینی عوام کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بوسنیا میں امن معاہدے کے باوجود ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ ہر بار امن کے نام پر مسلمانوں کو دھوکا دیا گیا۔ آج بھی یہی کھیل غزہ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ امریکا اسرائیل کی غیر قانونی توسیع کیلئے راستہ ہموار کر رہا ہے اور یہی اس منصوبے کا اصل ہدف ہے۔ اگر مسلمان ممالک نے آنکھیں بند کر کے اس کی توثیق کر دی تو کل فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائے گا اور قبلہ اول قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔

حکومت پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ اس منصوبے پر حماس اور فلسطینی قیادت کے جواب کا انتظار کرتے۔ پارلیمنٹ میں کھلی بحث کرواتے، عوام کو اعتماد میں لیتے اور پھر ایک اجتماعی قومی موقف کے ساتھ دنیا کے سامنے آتے۔ بند کمروں میں کیے گئے فیصلے نہ صرف ناقابلِ قبول ہیں بلکہ مستقبل میں پاکستان کیلئے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت غزہ میں متوقع طور پر تعینات کی جانے والی بین الاقوامی فوج میں پاکستان کی شمولیت کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، جو ایک نہایت حساس مسئلہ ہے۔ اس پر وسیع اور کھلی بحث ناگزیر ہے، وگرنہ ایک بار پھر جلد بازی کا فیصلہ پاکستان کو ایسی دلدل میں دھکیل سکتا ہے، جس سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنے اصولی اور تاریخی موقف پر ڈٹا رہے، فلسطینی عوام کی آواز کو مقدم سمجھے اور کسی بھی بین الاقوامی منصوبے کی حمایت اس وقت تک نہ کرے جب تک اس میں فلسطینیوں کے مفادات کو تحفظ نہ دیا گیا ہو اور اسرائیل کو طے شدہ ضابطوں کا پابند نہ کیا گیا ہو۔ اس کے بغیر کسی بھی منصوبے کی حمایت تاریخ میں پاکستان کی رسوائی کا باعث بنے گی۔