جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم شہباز شریف کا مؤثر خطاب

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس نیو یارک میں جاری ہے جس سے عالمی رہنما باری باری خطاب کر رہے ہیں اور عالمی و علاقائی امور پر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ ویسے تو اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حیثیت اب ایک ہائیڈ پارک کی سی رہ گئی ہے جہاں دنیا کے مختلف ممالک اور اقوام کے نمایندے آکر اپنے مسائل پر دل کی بھڑاس نکال کر چلے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ ،اس کی جنرل اسمبلی ، سلامتی کونسل اور یگر ذیلی اداروں میں کہنے کو تو دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کی نمایندگی حاصل ہے اور اس وقت بھی اقوام متحدہ ہی کو عالمی مسائل اور بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے واحد معتبر و مسلمہ فورم سمجھاجاتا ہے مگر حقیقت حال یہ ہے کہ اپنے قیام کے 80 برس مکمل ہونے پر یہ عالمی ادارہ عالمی مسائل کے حل میں جس طرح بے بس نظر آتا ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے اس کے مستقبل کے آگے بھی کئی سوالیہ نشان کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر جیسے اہم ترین تنازعات شروع دن سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل رہے ہیں مگر بدقسمتی سے اقوام متحدہ ان تنازعات کا حل تلاش کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

اس ناکامی کی بنیادی وجہ اقوام متحدہ کے بنیادی ڈھانچے کی مخصوص ہیئت کذائی ہے جس میں ویٹو پاور کے نام سے چند عالمی قوتوں کو پوری عالمی برادری کی رائے اور موقف کو بلڈوز کرنے کا ناجائز حق دیاگیا ہے اور اب تک اس حق کا سب سے ظالمانہ استعمال امریکا نے کیا ہے۔ غزہ میں نسل کشی روکنے کی سلامتی کونسل کی قرار داد کو امریکا نے مسلسل چھٹی بار ویٹو کرکے جس طرح وہاں کے تین ملین انسانوں کی زندگیاں جہنم بنا دی ہیں، یہ انسانیت کے چہرے پر لگا بدنما داغ ہے جس کو شاید قیامت تک نہیں مٹایا جاسکے گا۔ جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے نام پر چند بڑے ممالک کی اجارہ داری ختم نہیں ہوتی یا پھر جنرل اسمبلی کو زیادہ اختیارات دے کر جمہوری اصولوں کے تحت چلانے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، اقوام متحدہ کی سالانہ جنرل اسمبلی کے موقع پر عالمی رہنماؤں کی اکٹھ کی اہمیت و حیثیت علامتی ہی رہے گی۔ البتہ اس امر میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ایک ایسے فورم پر جہاں پوری دنیا کے سربراہان مملکت اور سفارتی وفود شریک ہوتے ہیں، دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک کو کسی بھی عالمی یا علاقائی مسئلے پر اپنا نقطہ نظر اور موقف عالمی برادری تک پہنچانے کا ایک اچھا موقع میسر آجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے عالمی رہنما جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے پوری تیاری کے ساتھ آتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مسائل کو موثر انداز میں دنیا کے سامنے اجاگر کیاجائے۔

پاکستان کے سربراہان مملکت و حکومت کی جانب سے ہر سال جنرل اسمبلی میں پاکستان اور عالم اسلام کا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت اور عظیم ترین فوج کے حامل ملک ہونے کے ناتے پاکستان کی بات کو توجہ سے سنابھی جاتا ہے۔ امسال پاکستان پر دنیا کی نظریں دو خصوصی حوالوں سے بھی لگی ہوئی تھیں۔ ایک مئی میں ہونے والے پاک بھارت معرکے میں پاکستان کی بے مثال فتح کے چرچے کے تناظر میں اور دوسرا مسئلہ فلسطین سے متعلق غیر متزلزل موقف اور سفارتی کوششوں کے تناظر میں دنیا پاکستان کو سننا چاہتی تھی۔ مقام شکر ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے دونوں معاملات سے متعلق جنرل اسمبلی میں نہایت مضبوط لہجے اور دبنگ انداز میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کا آغاز کا قرآنی آیات کے ساتھ کیا ۔ وزیراعظم نے بنیان مرصوص آپریشن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو ایسا فیصلہ کن جواب دیا جسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مسلح افواج نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں جرات اور بہادری کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری علاقوں پر حملہ کرکے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا۔ شہباز شریف نے کہا کہ بھارت کی جانب سے سرحدوں کی سا لمیت اورقومی سلامتی کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس موقع پر پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنا حق دفاع استعمال کیا۔غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ غزہ کی صورتحال عالمی ضمیر پر بدنما داغ اور اجتماعی اخلاقی ناکامی ہے۔ فلسطین کے عوام کی حالت زار ہمارے دور کے دلخراش سانحے میں سے ایک ہے۔ اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم نے خواتین اور بچوں پر ناقابل بیان خوف مسلط کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ 8 دہائیوں سے فلسطینی عوام اپنے وطن کا دفاع کر رہے ہیں۔ مغربی کنارے پر غیر قانونی یہودی آباد کار دہشت گردی پھیلا رہے ہیں، ہر گزرتا دن ایک نئی سفاکیت لارہا ہے۔ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے تحت خود مختار ریاست چاہتے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے موجودہ عالمی منظر نامے میں دنیا کو درپیش اہم خطرات کی بھی نشاندہی کی، انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، دنیا بھر میں تنازعات شدت اختیار کررہے ہیں، عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے، انسانی بحران بڑھتے جارہے ہیں، گمراہ کن پروپیگنڈا اورجعلی خبروں نے اعتماد کو متزلزل کردیا ہے۔ دہشت گردی دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ پاکستان دہشت گردوں کے آگے ایک دیوار ہے جس نے دنیا کو دہشت گردی سے بچایا ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر بھی بات کی اور بجا طور پر عالمی برادری کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی کہ اس عالمی مسئلے سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہوا ہے جس کو صرف اس سال آنے والے سیلاب اور طوفانی بارشوں سے 34ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم شہباز شریف کے خطاب میں امریکی صدر ٹرمپ کی تعریف میں مبالغہ آرائی کو بہت سے قومی حلقوں نے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا البتہ مجموعی لحاظ سے ان کا خطاب جامع، متوازن اور بہت حد تک قوم کی امنگوں کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور عالم اسلام کا جو مقدمہ ہم نے دنیا کے سامنے رکھاہے، اس کو آگے بڑھانے اور کامیابی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے ٹھوس اور موثر عملی اقدامات بھی کریں۔