جنرل اسمبلی سے خطاب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دنیا بھر میں جاری تنازعات، انسانی حقوق کی پامالیوں اور بڑھتے ہوئے بحرانوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے غزہ اور یوکرین کے حالات کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ غزہ کے عوام پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی ناگزیر ہے۔ دوسری جانب فلسطین کو ریاست تسلیم نہ کرنے پر اٹلی میں بڑے پیمانے پر ہنگامے پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں 60 سے زاید پولیس اہلکار زخمی ہوگئے جب کہ10 سے زاید افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ 25 مغربی ممالک نے قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے درمیان طبی راہداری کو دوبارہ کھولے تاکہ مریضوں کو علاج کے لیے منتقل کیا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا جاری اجلاس ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کررہا ہے کہ دنیا ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے خطاب میں غزہ اور یوکرین کی صورتحال کو عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ قرار دیا اور پوری شدت کے ساتھ جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور اسرائیلیقیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ اگر یہ خونریزی فوری نہ رکی تو اس کے اثرات عالمی سطح پر شدید بے چینی، اضطراب اور تشدد کو جنم دیں گے، کوئی مبالغہ نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت ہے۔ یہ انتباہ دنیا اور انسانیت کے اجتماعی احساسات کی ترجمانی کرتا ہے، کیونکہ آج دنیا کی اکثریت ایک ہی مطالبے پر متفق ہے کہ غزہ میں انسانی قتلِ عام بند کیا جائے، نہتے فلسطینیوں کو جینے کا حق دیا جائے اور ان کی اپنی زمین پر ان کے حقِ ملکیت کو تسلیم کیا جائے اور یہ مطالبہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے بقول بجا طور پر فلسطینیوں کا حق ہے، ان پر کوئی احسان و انعام نہیں۔ یہ صورتحال ایک واضح لکیر کھینچ چکی ہے۔ لکیر کے ایک طرف پوری دنیا کھڑی ہے، جہاں مختلف قومیں، مذاہب اور خطے اس بات پر یک زبان ہیں کہ اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ نسل کشی کی یہ جنگ اب ختم ہونی چاہیے، جو خوش آئند ہے اور انسانیت پر یقین کے احساس کو تازہ رکھنے کا ذریعہ ہے۔
عوامی سطح پر بھی یہ غم و غصہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ یورپ میں بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں، اٹلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کرنے پر شدید ہنگامے پھوٹ پڑے، درجنوں پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور کئی گرفتاریاں ہوئیں۔ اسپین، فرانس، جرمنی، برطانیہ سمیت دنیا کے تمام بااثر ملکوں کے عوام سڑکوں پر ہیں اور اپنی حکومتوں سے اب بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں۔ یہ سب اس امر کی علامت ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر دنیا بھر کے انسان رنگ و نسل اور مذہب و ملت سے اوپر اٹھ کر ضمیر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لکیر کے دوسری طرف صرف امریکا اور اسرائیل ہیں، جن کے ساتھ محض ان کے چند زلہ خوار ممالک کھڑے ہیں۔ یہ وہ طاقتیں ہیں جو اکثریت کی آواز کو رد کرکے اپنے مفادات کی خاطر دنیا کو شدید اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ یہ سب کچھ اس زمانیمیں ہو رہا ہے جسے سلطانیِ جمہور کا دور کہا جاتا ہے۔ امریکا جو خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار کہتا ہے، وہ جمہور کی رائے کو مسلسل پائے حقارت سے ٹھکرا رہا ہے۔ جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اکثریت کی رائے کا احترام کیا جائے، مگر امریکا اپنے لے پالک اسرائیل کی خاطر اس اصول کو مسلسل روندتا چلا آرہا ہے اورمسلمہ جمہوری و انسانی اقدار کو پامال کر رہا ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد میں دنیا کے بڑے حصے نے جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی، مگر اس سب کے باوجود امریکا تنہا ایک دیوار بن کر سامنے کھڑا ہے۔ یہ جمہوریت کی تاریخ میں وہ مقام ہے جہاں طاقت اور مفاد پرستی نے انسانیت کی اجتماعی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ خاموشی برقرار رہی تو نتائج انتہائی سنگین ہوں گے۔
غزہ کی بربادی صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کی تباہی ہے۔ اسرائیل کی غنڈا گردی اور اندھی طاقت کے استعمال نے خطے میں فوجی صف بندی کو بڑھاوا دیا ہے۔ عالمِ اسلام میں فوجی معاہدے اور اتحاد وجود میں آ رہے ہیں۔ اگر صورتحال جاری رہی تو اسرائیل کی کوئی جارحانہ حماقت کسی بڑے تصادم کو بھڑکا سکتی ہے اور اگر تصادم ہوا تو یہ ایک خطے تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ بتدریج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور تباہی کے ذمہ دار دو ہی ہوں گے ٹرمپ اور نتن یاہو جیسے ضدی اور ہٹ دھرم حکمران، جنہوں نے دنیا کو بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔ان تمام حالات میں امید کی کرن یہی ہے کہ دنیا کی غالب اکثریت نے ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم کہنے کی جرات دکھائی ہے، تاہم آج ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ آواز بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ عملی اقدامات کی شکل اختیار کرے۔
نظریاتی صحافت کے 24 سال!
روزنامہ اسلام کی مسلسل اشاعت کے 24 سال مکمل ہونے پر قارئین، صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے روزنامہ اسلام کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے،روزنامہ اسلام نے ستمبر 2001 میں اپنے صحافتی سفر کا آغاز ایک نئی روایت کے ساتھ کیا، شرعی معیارات کے تحت شائع ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا روزنامہ تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس انداز کے ساتھ اخبار زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گا، مگر قارئین کے بڑے حلقے نے روزنامہ اسلام کی اس نظریاتی استقامت کو سراہا اور بڑی تعداد میں اس کے ساتھ جڑ گئے، آج اس سفر کو 24 برس مکمل ہوچکے ہیں۔روزنامہ اسلام نے دو نسلوں کی نظریاتی تربیت اور فکری آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بطور خاص روزنامہ اسلام کے دو مایہ ناز رسالوں ”بچوں کا اسلام” اور ”خواتین کا اسلام” نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا، جس کا آج قارئین کی جانب سے اعتراف بھی کیا جار ہا ہے اور یہی درحقیقت اس سارے سفر کا حاصل اور روزنامہ اسلام کا سرمایہ ہے۔ گو اب اخبارات کا عہدِ زوال ہے، تاہم روزنامہ اسلام جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بھی بتدریج خود کو ڈھال رہا ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ چل رہی ہے۔ سوشل میڈیا پیجز اور یوٹیوب چینل بھی فعال ہے۔ قارئین کی محبت اور اعتماد یونہی برقرار رہا تو ان شاء اللہ روزنامہ اسلام کا یہ سفر مزید کئی سنگ میل کامیابی سے عبور کرے گا۔ اس تاریخی موڑ پر ہم اپنے قارئین کا بھی تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔