اخباری رپورٹوں کے مطابق پاکستان نے ایک بار پھر افغان عبوری حکومت سے کالعدم ٹی ٹی پی سے دوری اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس سلسلے میں افغان سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے کالعدم ٹی ٹی پی اور”را” کی افغانستان میں موجودی کیخلاف سخت پیغام دیا گیا ہے۔پاکستان نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کا سلسلہ ختم کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کرے۔ سفیر کو واضح اور دو ٹوک الفاظ میں آگاہ کر دیا گیا ہے کہ افغان حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کی مذموم سرگرمیوں کیلئے استعمال نہ ہو۔
یہ بڑی افسوس کی بات ہے کہ موجودہ افغان حکومت بھی سابقہ امریکی پٹھو انتظامیہ کی روش پر چلتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کیخلاف غیر رسمی ریاستی پالیسی کے طور پر اختیار کرچکی ہے۔ یہ واضح ہے کہ یہ عمل صرف ایک پڑوسی ملک کیلئے نہیں بلکہ پورے خطے کیلئے تباہ کن نتائج کا موجب بن سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے افغان سفیر کی دفتر خارجہ طلبی اور کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے قطع تعلق کا مطالبہ کوئی پہلی بار نہیں ہو ا۔ بارہا یہ مشق دہرائی جا چکی ہے مگر بدقسمتی سے نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی برآمد ہو رہا ہے۔ اگر کسی ملک کی سرزمین کا استعمال دوسرے ملک کیخلاف دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور سرپرستی کیلئے ہونے لگے تو اس کے نقصان کا بوجھ اسی سرزمین کے عوام، معیشت اور سیاسی مستقبل پر پڑتا ہے۔ افغان عبوری حکومت گو مسلسل انکار کی روش پر قائم ہے کہ ان کے ملک سے کوئی دہشت گردی نہیں ہو رہی مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، جس کو انکار کی پالیسی کے ذریعے کسی صورت رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ انکار ہی دراصل دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا غیر رسمی عمل ہے، جس کو کسی لاگ لپیٹ کے ذریعے نہیں چھپایا جاسکتا۔ اس غیر رسمی پالیسی کے تحت افغان سرزمین کے اندر پاکستان مخالف مسلح گروہوں کو پناہ، فنڈنگ اور آزادانہ نقل و حمل کی اجازت حاصل ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کا داخلی امن و استحکام بری طرح متاثر ہو رہا ہے، آئے دن ہونے والے ان حملوں سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حملوں کو کب تک انکار کی آڑ میں جواز فراہم کیا جاتا رہے گا؟
صورتحال یہی رہی تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں، پاکستان کا ردعمل صرف دراندازی کے دفاع تک محدود نہیں ہوگا، پاکستان کو بہ امر مجبوری ایک جامع جارحانہ دفاع کی پالیسی اپنانا ہوگی، جس کے نتائج بہت دور رس ہوں گے۔ اس صورت میں وہ عدم استحکام جو افغانستان کی جانب سے پاکستان میں پیدا کیا جا رہا ہے، اسے افغان سرزمین میں دھکیلا جاسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ اندرونی انتشار میں اضافہ اور وسیع بے امنی کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتا ہے اور افغانستان جیسی جنگ زدہ معیشت کیلئے یہ بہت بھاری ثابت ہوگا۔ لامحالہ اس کابڑا خمیازہ افغان عوام کو بھگتنا پڑے گا۔دوسرا یہ کہ اپنی سرزمین کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے بین الاقوامی سطح پر بھی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ایک ملک جو اپنے حلقہ اثر میں موجود مسلح گروہوں کو کنٹرول نہ کر سکے، اسے دنیا میں کون ایک ذمہ دار ملک سمجھے گا۔ پاکستان بارہا ثبوتوں کے ساتھ افغان عبوری حکومت کو سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی سے آگاہ کر چکا ہے۔ اس معاملے میں مذاکرات بھی ہوچکے ہیں۔ پاکستان سے کئی وفود کابل جاکر افغان حکام سے بات چیت کر چکے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان کے موقف کو اہمیت ہی نہیں دی جا رہی۔ پاکستان نے مجبور ہوکر اس معاملے کو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر بھی اٹھایا ہے۔ یہ یقینا ایک اسلامی ملک (افغانستان) کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس کا پڑوسی اسلامی ملک (پاکستان) اس کے آزار سے تنگ آکر عالمی اداروں کو شکایت کرنے پر مجبور ہے۔ یہ سب افغانستان کیلئے نقصان دہ ہوگا،اس سے اس کے بین الاقوامی تعلقات مزید پیچیدہ اور کمزور ہوں گے۔
تیسرا معاملہ انسانی ہجرت اور پناہ گزینی کا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں جب بھی افغانستان پر کوئی مشکل آئی اپنے دروازے کھولے اور لاکھوں افغان بھائیوں کو پناہ دی، اس بار ایسا کچھ ہوا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغان عوام کس مشکل میں پھنس جائیں گے اور اس کا افغان حکومت پر کس قدر دباؤ آئے گا۔ بالخصوص اس صورتحال میں کہ پڑوس کا کوئی اور ملک افغان عوام کو پناہ دینے کیلئے تیار نہیں۔ ان سب امور کو پیش نظر رکھ کر افغان حکومت کو پاکستان کے موقف کو سنجیدہ توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان کی افغانستان سے کوئی دشمنی نہیں، وہ ایک جائز مطالبہ کر رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین اس کیخلاف استعمال ہو رہی ہے اور اس کے واضح ثبوت بھی پیش کیے جا رہے ہیں، پاکستان کے عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اتنی واضح اور جائز بات کو افغان حکام کی جانب سے کوئی اہمیت کیوں نہیں دی جا رہی۔ اسلامی بھائی چارے کے تقاضوں سے قطع نظر بھی امن و استحکام خود افغانستان کی بھی ضرورت ہے اور یہ ضرورت اس وقت ہی پوری ہو سکتی ہے جب دہشت گردی کے مراکز بند کیے جائیں۔ افغان حکام کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی اور اسی میں دونوں ملکوں کی بہتری ہے۔
انتشار پھیلانے والے سوشل کھاتے بند ہونے چاہئیں
بانی پی ٹی آئی کے اڈیالہ جیل سے جاری ہونے والے کھلم کھلا فوج مخالف بیانات ملک میں بڑے پیمانے پر انتشار اور منافرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ آئے دن بانی پی ٹی آئی کے ویری فائیڈ سوشل میڈیا اکاونٹس سے ملک میں انتشار اور فساد کو ہوا دینے والی پوسٹس کی جا رہی ہیں، جس سے ایک طرف ملک کے اندر سیاسی اور سماجی ماحول بری طرح بگڑ رہا ہے وہاں عالمی سطح پر بھی پاکستان اور پاکستان کے اداروں کی بدنامی ہو رہی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ بالآخر متعلقہ اداروں کو اس مکروہ سلسلے کو بند کرنے کی ضرورت کا احساس ہوگیا ہے اور جیل میں اس سلسلے میں بانی پی ٹی آئی سے پوچھ گچھ کا ایک دور بھی ہوگیا ہے، جس میں رپورٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی جانب سے حسب روایت سخت منفی اور غیر مفاہمانہ رویے کا اظہار کیا گیا۔ اگر تفتیش میں ناکامی ہوتی ہے تو حکومت اور متعلقہ اداروں کو ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کروانے کیلئے دوسرے تکنیکی طریقے اختیار کرنے چاہئیں تاکہ ملک میں انتشار پھیلانے کا یہ بنیادی ذریعہ ختم کردیا جائے۔