آزاد فلسطینی ریاست کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا؟

ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ خبر اس وقت عالمی میڈیا میں ایک نمایاں حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ سفید فام اقوام کی تین اہم ریاستوں کی جانب سے فلسطین کو ایک ریاست کی حیثیت سے قبول کرنا، دراصل فلسطینی کاز کی عالمی مقبولیت کی علامت ہے۔ ان تینوں ممالک نے فلسطینی ریاست کی قبولیت کو انسانی حقوق، انصاف اور عالمی قوانین کی پاس داری سے تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے تاہم دوسری جانب امریکا جوکہ اس وقت دہشت گردی کے عالمی مرکز اسرائیل کا حقیقی سرپرست ہے، ان ممالک کے فیصلے سے ناخوش دکھائی دیتا ہے۔ امریکی حکومت کے مطابق یہ فیصلہ زمینی حقائق کے منافی، عملیت پسندی سے بعید اور محض نمائشی اقدام ہے اور اس سے خطے کی صورت حال پر کوئی فرق مرتب نہیں ہوگا۔

امریکی حکومت کی جانب سے برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے فیصلے پر تنقید دراصل اس بات کی نشان دہی ہے کہ امریکی حکومت کے نزدیک معاملات کا حل صرف طاقت کے استعمال ہی سے ممکن ہے، آزادی، جمہوریت، انسانی حقوق اور عالمی قوانین دراصل امریکی حکام کے نزدیک بھی ثانوی درجے کی شے ہیں۔ اصل چیز مفادات کا حصول اور اس کے لیے طاقت کا ہر قسم کا استعمال ہے جوکہ فی الحال اسرائیل کر سکتا ہے۔ آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے نہتے یا کمزور فلسطینیوں کے پاس چوں کہ درکار طاقت نہیں لہٰذا امریکی حکومت کے خیال میں محض چند ممالک کی طرف سے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کر لینا خطے کی موجودہ صورت حال میں کسی تبدیلی کا باعث نہیں ہوگا۔

فلسطینی مزاحمت کاروں کی تنظیم حماس نے برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ قضیہ فلسطین کا دو ریاستی حل غیر منطقی ہے کیوں کہ اس قضیے کا طاقت ور فریق یعنی قابض اسرائیل کسی فلسطینی ریاست کا وجود تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہے۔ قابض اور غاصب طاقت گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور اس وقت غزہ کی جنگ میں نسل کشی ایک منظم قتلِ عام میں تبدیل ہو چکی ہے اور روزانہ سو کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ دو سال کے عرصے میں قریباً دو لاکھ فلسطینی شہید اور زخمی کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں لاپتہ ہیں۔ بچوں اور خواتین کو خوف ناک میزائلوں اور نہایت وزنی بموں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غزہ کو ملیامیٹ کر دیا گیا ہے۔ ایسے سفاک، ظالم اور دہشت گرد ٹولے سے یہ بعید ہے کہ وہ طاقت کے جواب میں طاقت کے استعمال کے بغیر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پرآمادہ ہوگا۔ چنانچہ اس تناظر میں چند ممالک کی جانب سے فلسطین کو بحیثیت ریاست تسلیم کر لینے سے صورت حال میں کوئی نمایاں فرق پڑتا دکھائی نہیں دے ر ہا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ارض مقدس فلسطین کے مجموعی رقبے پر ایک مکمل آزاد و خودمختار ریاست کی جدوجہد اور اسی کی حمایت جاری رکھی جائے اور دو ریاستی حل کو غیر معقول تصور کیا جائے جیسا کہ پاکستان کا حقیقی موقف بھی یہی رہا ہے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اس متعلق ایک واضح پالیسی دے چکے ہیں کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو ایک ریاست کی حیثیت سے قبول نہیں کرے گا۔ اس اصولی موقف کی حقانیت کو تسلیم کرنے کے باوجود وسیع پیمانے پر یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کو اس طرح تسلیم کر لیا جائے کہ اس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو تو موجودہ حالات میں یہ امر بھی ایک بڑی کامیابی کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ اس وقت فلسطینی عوام زخموں سے چور ہیں۔ دو سال سے وہ مسلسل ایک خوف ناک جنگ کا سامنا کر رہے ہیں جس نے ان کی رگوں سے لہو نچوڑ لیا ہے۔ اس وقت امن ان کی بڑی ضرورت ہے۔ ظالم اور غاصب اسرائیل اور اس کی دہشت گرد افواج خون آشام درندوں کی مانند ان کا لہو پی رہی ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں اگر یورپی ممالک فسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو یہ بھی فلسطینی کاز کے لیے نہایت اہم پیش رفت ہوگی۔ اس سے اسرائیل پر سفارتی دباؤ میں اضافہ ہوگا اور عرب ریاستوں کو اسرائیل کی اقتصادی ناکہ بندی کے مواقع میسر آسکیں گے۔

اس موقع پر یہ امر بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ سعودی اور عرب اور پاکستان کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے نے خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان اور مصر کے درمیان مشترکہ طورپر اسلحہ سازی کے لیے بات چیت جاری ہے۔ ایران اور قطر کے درمیان دفاعی نوعیت کے معاملات طے پا رہے ہیں جبکہ ترکیہ اور سعودیہ اور پاکستان کے درمیان بھی مشترکہ دفاع سے متعلق اہم امور پر گفت و شنید کی اطلاعات ہیں۔ ان حالات میں قابض اسرائیل خطے کی واحد سپر طاقت نہیں رہا۔ مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کی آمد کے بعد اب وہاں تاریخی نوعیت کی تبدیلیوں کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ معاشی مسائل سے دوچار یورپی ممالک کے حکام سنجیدگی سے فلسطین کے معاملے پر مسلم امہ کے ردعمل پر غور کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں یورپ کی رائے عامہ بھی اس وقت صہیونیت کے عالمی شکنجے کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں امریکا طاقت کے استعمال کے ذریعے اسرائیل کی حمایت کب تک جاری رکھ سکتا ہے؟ یہ امر آنے والے کچھ ہی عرصے میں مزید واضح ہو جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق امریکی اور عرب حکام کے درمیان اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے قبل ایک اہم مشاورت ہو سکتی ہے جس میں علاقائی صورت حال اور نئی تبدیلیوں کے تناظر میں کوئی پیش رفت بھی ممکن ہے۔ قیاس ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس میں مسئلہ فلسطین کو مزید حمایت حاصل ہوگی۔ ضروررت صرف اس بات کی ہے کہ اسلامی ممالک اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور امت مسلمہ کا مقدمہ موثر انداز میں دنیا کے سامنے رکھیں۔ پاکستان نے دفاعی میدان میں پیش رفت کر کے بفضلہ تعالیٰ مسلم امہ کے دامن پر لگا یہ داغ دھو دیا ہے کہ مسلم ممالک کچھ نہیں کر سکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عرب ریاستیں بھی مزید ہمت سے کام لیں اور یورپی ممالک اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رہے ہیں تو اسے عملی صورت بھی دی جائے۔ فلسطین کی آزاد ریاست کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا؟ اس متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اہلِ غزہ کا مقدس لہو عربوں میں نمودار ہونے والی بیداری کی لہر کی صورت میں رنگ لاتا دکھائی دے رہا ہے۔