سب سے اہم، سب سے پہلے

ابتدا ایک کہانی سے کرتے ہیں۔ ممکن ہے آپ میں سے کسی نے یہ کہانی پڑھ رکھی ہو۔ مغرب سے درآمدشدہ کہانی ہے۔ اگر پڑھ یا سن رکھی ہے تو دوبارہ پڑھ لیں کہ بعض چیزوں کی تجدید بڑی ضروری ہوتی ہے۔

یہ کسی مغربی شہر کے ایک کالج کی کہانی ہے۔ فلسفے کی کلاس ہے مگر پروفیسر آج آ کر خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ میز پر رکھی چیزوں کو دیکھتا رہا۔ ایک ڈیڑھ فٹ لمبا خالی جار، ریت، بجری اور کنکریوں کے تین چار پیکٹ میز پر سجے تھے۔ طلبہ حیران تھے کہ آج فلسفے کی کلاس میں یہ کس قسم کا پریکٹیکل ہونے لگا ہے۔ پھر اچانک پروفیسر اپنی نشست سے اٹھا، میز کے نزدیک آیا۔ اس نے خالی جار اٹھایا اور اس میں ڈیڑھ دو انچ موٹے کنکروں کا پیکٹ خالی کر دیا۔ جار ان چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بھر گیا۔ پروفیسر نے خاموشی سے جار اٹھایا، طلبہ کے سامنے لہرایا اور پوچھا کیا یہ جار بھر چکا ہے؟ تمام طلبہ نے اثبات میں جواب دیا۔ پروفیسر نے اب بجری کا چھوٹا پیکٹ اٹھایا اور اسے جار میںڈال کر زور سے دو تین بار ہلایا۔ باریک بجری کنکروں کی درمیانی جگہ میں سما گئی۔ استاد نے پوچھا کیا جار بھرا ہوا ہے؟ شاگردوں نے اس بار بھی ہاں میں جواب دیا۔ اب کے پروفیسر نے ریت کا پیکٹ اٹھایا اور اسے جار میں انڈیل دیا۔ ریت پھسلتی ہوئی بجری اور کنکروں کے دائیں بائیں، نیچے اوپر سما گئی۔ جار اب ان تینوں چیزوں سے لبالب بھرا تھا۔ اس نے تیسری بار کلاس سے پوچھا کہ کیا یہ جار بھر چکا ہے؟ اس بار بھی کلاس نے متفقہ طور پر ہاں میں جواب دیا۔

پروفیسر نے جار میز پر رکھ دیا اور گویا ہوا، اگر تم لوگ اس جار کو اپنی زندگی سے تشبیہ دے لو تو اس تجربے سے بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کنکروں سے مراد زندگی میں اہم ترین چیزیں ہے۔ آپ کے والدین بہن بھائی، شریک حیات، بچے، صحت، بچوں کی صحت وغیرہ۔ یہ وہ اہم چیزیں ہیں کہ اگر باقی سب کچھ ضائع ہو جائے اور یہ سلامت رہ جائیں، تب بھی آپ کی زندگی بدستور بھری رہے گی۔ اس جار میں موجود بجری کی مثال ان چیزوں کی ہے جو اہمیت تو رکھتی ہیں، مگرترجیح میں دوسرے نمبر پر آتی ہیں۔ آپ کی ملازمت، گھر، کار، بائیک وغیرہ۔ ریت کی مثال زندگی میں موجود باقی تمام چھوٹی چیزوں کی سی ہے۔

اب استاد نے ایک اور سوال پوچھا، اگر ہم اس جار میں پہلے ریت بھر دیتے تو کیا ان کنکریوں اور بجری کی جگہ بچتی؟ طلبہ کا نفی میں جواب سن کر وہ مسکرایا اور بولا، زندگی کے جار میں بھی آپ لوگوں نے پہلے ریت یعنی غیر اہم چیزیں بھر دیں تو اہم ترین اور اہم چیزوں کے لئے جگہ ہی نہیں بچے گی۔ اپنی انرجی اور وقت کا سب سے زیادہ حصہ آپ کی زندگی کی اہم ترین چیزوں پر خرچ ہونا چاہیے۔ غیر اہم اور چھوٹے چھوٹے سطحی معاملات پر اگر زیادہ انرجی اور وقت لگا دیا تو اہم ترین چیزیں نظر انداز ہو جائیںگی۔ آپ لوگ عملی زندگی میں قدم رکھنے والے ہیں، اپنی فیملی بھی آپ شروع کریں گے۔ یاد رکھیں کہ زندگی میں کامیابی کا اصول یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے چیزوں کی ایک ترجیحی فہرست بنائی جائے۔ سب سے زیادہ اہم کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے۔ اپنے والدین کی دیکھ بھال کریں، رفیق حیات کا خیال رکھا جائے، بچوں کے ساتھ وقت گزارا جائے۔ کیرئر میں آگے بڑھنے کی خواہش اپنی جگہ اہم ہے، خوشحال ہونے کا بھی آپ سب کو حق ہے مگر یہ سب اپنی صحت اور فیملی کی قیمت پر ہرگز نہیں کیا جائے۔ ترجیحات بنائیں، کنکریوں اور بجری کو ترجیح دیں، باقی سب ریت ہے، اس کی خاطر زندگی نہ گنوائیں۔

اس مغربی موٹیویشنل کہانی کو جب میں پہلی بار پڑھا تو مبہوت رہ گیا۔ برسوں تک اس کا گہرا اثر رہا، آج بھی یہ سادہ مگر اہم سبق ذہن نشین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کیرئر میں اوپر جانے کی دیوانہ وار دوڑ اور سخت ترین مسابقت نے ہم میں سے بیشتر کو ٹریک سے ہٹا دیا ہے۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی بے کار چیزیں ہمارے لئے اصل بنیادی ایشوز سے زیادہ اہم ہو چکی ہیں۔ ترجیحات کو مرتب کرنا سب سے ضروری کام ہے۔ جب یہ واضح ہو جائے کہ زندگی میں اہم ترین کیا ہے، تب ہی ہم اپنی زندگی میں توازن لا سکتے ہیں۔ پرسنالیٹی مینجمنٹ کے لئے اوپر دی گئی مثال بڑی شاندار ہے۔ اس قسم کے واقعات جب کہیں پر پڑھے یا سنے جائیں تو یہ ویک اپ کال کا کام دیتے ہیں، وہ الارم جو انسان کو سوتے سے جگا دے۔ میں یہ واقعہ یا حکایت پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ بات فرد کی طرح قوم پر بھی پوری اترتی ہے۔

افراد کی طرح قوموں کی بھی ترجیحی لسٹ ہوتی ہے۔ تین چار اہم ترین ایشوز پہلی ترجیحی لسٹ میں آتے ہیں، جنہیں اس کہانی کے مطابق کنکریاں سمجھ لیں، دو چار معاملات بجری کی طرح اہم ہوتے ہیں، مگر قدرے ثانوی نوعیت کے جبکہ باقی بہت سے معاملات جن میں بعض قومیں اپنی تمام انرجی اور وقت ضائع کر دیتی ہیں، ان کی مثال ریت کی مانند ہے، جس کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے۔ ہم پاکستان کی مثال کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہماری قیادت، لیڈروں، اشرافیہ، دانشوروں اور فعال طبقات سے لے کر ایک عام آدمی تک کسی کے پاس ترجیحی لسٹ موجود نہیں۔ اندازہ ہی نہیں کہ کون سے ایشوز بنیادی نوعیت کے ہیں، ان پر اپنی پوری قوت، پیسہ اور وقت صرف کرنا چاہیے۔ ہم لوگ عرصہ دراز سے نان ایشوز میں الجھے رہتے ہیں۔ جو بھی حکمران آتا ہے، وہ اپنا سارا زور نان ایشوز میں لگا دیتا ہے، ایسی باتیں جن کی عملی طور پر کوئی اہمیت نہیں، مگر ان کی تشہیر کر کے سیاسی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہوں۔

کسی نے غریبوں کی ماہانہ مدد کا کھٹراگ برپا کر رکھا ہے تو کوئی سستی روٹیوں کا خواب بیچتا رہا۔ ہمسایہ ممالک کو فتح کرنے کے خیال کسی کے دل میں بسا تھا تو کسی کو اپنی تشہیر سب سے افضل محسوس ہوئی۔ یہ کسی نے نہیں سوچا کہ اہم ترین معاملہ تو اس چار پانچ قومیتوں میں بٹی مختلف زبانیں بولنے والی پچیس کروڑ آبادی کو ایک قوم بنانا ہے۔ قوم بنانا، قومی افتخار پیدا کرنا اور ہر حصے کے لوگوں کے دلوں میں وطن کے لئے حقیقی محبت کے جذبات پیدا کرنا بنیادی ترجیح ہونی چاہیے تھی۔ اس پر سب سے کم سوچ بچار ہوا۔ اس خاندان، اس قوم کی بنیادی ضرورت یعنی مناسب دام میں خوراک کی فراہمی، صحت اور تعلیم کی مناسب سہولتیں، مجرموں سے جان مال کا تحفظ اور سستا انصاف۔ ان تین چار معاملات کے گرد ہی بنیادی ایشوز گھومتے ہیں۔ ہم اس سب میں کس حد تک کامیاب ہو سکے، وہ سب کے سامنے ہیں؟

پھر کسی بھی فرد، خاندان یا قوم کے لئے اہم ایشو یہ بھی ہے کہ اس کی آمدنی اس کے اخراجات سے زیادہ ہو، خواہ ایک روپیہ بھی زیادہ ہو۔ اگر آمدنی کم ہو اور اخراجات زیادہ تو ملک مقروض ہی ہوتا چلا جائے گا۔ ہم اپنے اخراجات پر کبھی کنٹرول کر سکے نہ ہی آمدنی بڑھانے کی تدبیر سوچ سکے۔ ٹیکس ریونیو بڑھانے میں ناکامی ہوئی، ایکسپورٹ ایک حد سے زیادہ نہیں کر سکے، نتیجہ آج یہ ہے کہ جو کماتے ہیں اس کا نصف کے قریب قرضوں کا ادائیگی میں لگ جاتا ہے۔ ادھر انرجی کا ایشو ہی دیکھ لیں۔ کسی بھی قوم کی یہ بنیادی ضرورت ہے۔ سمجھدار اور دوراندیش ممالک دس بیس سال آگے کا سوچتے ہیں، ہم اس وقت تک سوئے رہے جب تک مصیبت ہمارے اوپر نازل نہ ہوگئی۔ پھر اندھا دھند مہنگے پلانٹ لگائے گئے اور ان سے ہر حال میں ایک خاص رقم کی بجلی خریدنے کی خوفناک شرط بھی مان لی گئی جو آج ملک وقوم کے لئے بڑی مصیبت بنی ہوئی ہے۔ کسی نے پاکستانی قوم کی ترجیحات کا اندازہ لگانا ہو تو وہ کسی بھی ایک ہفتے کے اخبارات اور چینلز پر ہونے والے مباحث اور ہماری پارلیمنٹ کی بحثیں ہی دیکھ لے۔ کاش کہ ہم اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی قومی زندگی کے لئے بھی کوئی ترجیحی فہرست بنا پائیں۔ آخر اٹھہتر برس گزرنے کے بعد اب تو ان ایشوز کا تعین کر لیں، جو اہم ترین ہیں۔