بگرام ایئربیس کے متعلق خطرناک امریکی عزائم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر افغانستان نے بگرام ایئربیس واپس نہ دی تو سنگین نتائج ہوں گے۔ امریکی اخبار کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان انسداد دہشت گردی کارروائیوں پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ بگرام ایئربیس پر محدود تعداد میں امریکی فوج کی تعیناتی پر غور کیا جا رہا ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے بگرام ایئربیس کی واپسی کی بات اب واضح اور خطرناک رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ دن اپنے دورہ لندن میں پہلی بار ٹرمپ نے کھل کر بگرام ایئر بیس کی واپسی کا اشارہ کیا۔ ٹرمپ نے اس بات کا تذکرہ ہلکے پھلکے انداز میں کیا اور عندیہ دیا کہ مذاکرات کے ذریعے ایئربیس واپس لینے کی کوشش کی جائے گی۔ ٹرمپ کے اس پہلے بیان کو زیادہ تر سنجیدہ نہیں لیا گیا اور یوں سمجھ لیا گیا جیسے ان کی عادت ہے کہ وہ بہت سے سنجیدہ معاملات میں بھی مزاحیہ انداز میں چلتے چلتے کوئی ایسا تبصرہ کرتے ہیں جو سوچی سمجھی پالیسی کا عکاس یا نتیجہ نہیں ہوتا اور لوگ اس کو وقتی پھلجڑی کے طور پر لیکر کچھ دیر تفریح کرلیتے ہیں، مگر ٹرمپ کا یہ ہلکا پھلکا بیان سامنے آنے کے بعد طالبان حکومت نے ٹرمپ کے اس بیان کو خاصا سنجیدہ لیا اور سنجیدہ مگر نرم انداز میں دوٹوک بات کی اور ایسے کسی امکان کو مسترد کیا کہ امریکا بگرام ایئربیس کو فوجی مقاصد کیلئے واپس حاصل کر سکتا ہے۔ طالبان حکومت نے اس کی بجائے اس بات پر زور دیا کہ ہم امریکا کے ساتھ باہمی احترام کا تعلق چاہتے ہیں، اقتصادی اور تجارتی روابط بھی رکھنا چاہتے ہیں مگر اپنی سرزمین پر امریکی فوجی موجودی کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔ طالبان حکومت کے اس ردعمل کے بعد اب ٹرمپ کی جانب سے زیادہ واضح، سنجیدہ اور دھمکی آمیز لہجے میں پیغام دیا گیا ہے کہ طالبان حکومت نے بگرام ایئربیس واپس نہ کی تو سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اطلاعات مظہر ہیں کہ امریکا اس معاملے کو واقعی سنجیدہ لے رہا ہے اور اس حوالے سے اس نے مذاکرات کا بھی آغاز کر دیا ہے اور ساتھ ہی جیسا کہ امریکا کی دیرینہ پالیسی رہی ہے دھمکانے کا بھی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

ٹرمپ نے اپنے بیان میں واضح طور پر پہلے بھی اور دوسری بار بھی چین کا بھی ذکر کیا اور واضح الفاظ میں کہا کہ ہم بگرام ایئربیس سے چین کی جوہری تنصیبات کی نگرانی کریں گے۔ چین کا ذکر آنے کے بعد چین کی خاموشی کا جواز نہیں تھا، چنانچہ چینی وزارت خارجہ نے بھی امریکا کو انتباہ کیا کہ وہ خطے میں کشیدگی اور تصادم کو ہوا دینے کی پالیسی نہ اپنائے۔ ٹرمپ کی دھمکی خاصی احمقانہ ہے۔ وہ ایسے دھمکا رہے ہیں جیسے بگرام ایئربیس امریکا کی ملکیت ہو یا پھر پوری روئے زمین کا مالک امریکا ہو اور وہ جہاں چاہے قبضہ جما کر اس پر جو چاہے کرے۔ ٹرمپ کی یہ دھمکی جمہوریت، انسانیت، تہذیب اور انسانی حقوق سمیت ان سبھی مغربی اقدار کی بھی یکسر منافی ہے، جن کا مغرب ہمہ وقت ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ امریکا کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی ملک و قوم کی سرزمین کو ہتھیانے کیلئے تحریص، تحریض، ترغیب اور ترہیب کا سہارا لے اور طاقت کے بل پر اپنی مرضی مسلط کرے۔ ٹرمپ کے بیانات امریکا کے خطرناک عزائم کو ظاہر کرتے ہیں جن کے نتائج بہت ہی سنگین ہوں گے۔ اول تو ایک آزاد و خود مختار ملک و قوم کو دھمکا کر اس کی زمین کا حصہ حاصل کرنے کی کوشش انتہائی آمرانہ ہی نہیں، غیر مہذبانہ اور وحشیانہ ہے، دوسرا یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا افغانستان میں ایک بار پھر قتل و خون اور فساد و انتشار کو ہوا دینا چاہتا ہے اور ساتھ ہی افغانستان کو چین کے خلاف محاذ جنگ میں بدلنا چاہتا ہے۔ امریکا کے ان عزائم کی سنگینی میں کوئی دوسری رائے نہیں۔ امریکا کی اگر یہی پالیسی ہے تو یہ انتہائی بھیانک ہے۔ اس کا مطلب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ خطے میں ایک بار پھر انسانی المیہ، قتل و خون اور ہجرت و فساد شروع ہو جائے۔

یہ وہ حالات ہیں جن میں خطے اور علاقے کی تمام ہم خیال طاقتوں کو ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور امریکا کو اس کے عزائم میں ناکام کرنا ہوگا۔ اس میں کسی ایک کی بھی غلطی، تنہا پرواز اور جذباتی عمل پورے خطے کیلئے آزمائش کی نئی اور خطرناک بھٹی کا دہانہ کھولے گا۔ خاص طور پر اس سارے منظر نامے میں طالبان حکومت کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوں گے۔ اس سلسلے میں اس پر بہت ساری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اسے گھمنڈ کے خول سے نکل کر پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان کیلئے افغانستان سے جو حقیقی چیلنجز ہیں اور وہاں سے خوارج کی جو دراندازی کا سلسلہ ہے، اسے روکنے پر سنجیدہ توجہ دینا ہوگی۔ ساتھ ہی چین اور ازبکستان جیسے قدرے ہم خیال ممالک کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا۔ یہ واضح ہے کہ امریکا اگر بگرام ایئربیس واپس لینے کیلئے کسی ایڈونچر کی طرف گیا تو یہ خطے کیلئے بھی اور امریکا کیلئے بھی بہت مضرت رساں ہوگا، اس لیے خطے کی قوتوں کو بہرحال اس حوالے سے سر جوڑنا ہوں گے۔

پاکستان کی جوہری صلاحیت پر عالمی اظہار اعتماد

ویانا میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی نے پاکستان کے سول جوہری پروگرام کو نہ صرف سراہا بلکہ اس میں ہورہی پیش رفت کو بھی عالمی سطح پر قابلِ تحسین قرار دیا۔ یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دنیا میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے خدشات اور سخت نگرانی کا ماحول پایا جاتا ہے۔ یہ بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ہمیشہ عالمی اداروں اور بڑی طاقتوں نے کڑی نظر سے پرکھا۔ اس کی ایٹمی صلاحیت پر سوالات اٹھائے گئے، اسے منفی پروپیگنڈے اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور بارہا دباؤ ڈالا گیا کہ پاکستان اپنے پروگرام کو رول بیک کرے۔ کبھی مالی لالچ دیا گیا تو کبھی عالمی دباؤ کے حربے استعمال کیے گئے، لیکن پاکستان نے ہر آزمائش میں اپنے ذمہ دارانہ رویے اور اعلیٰ فنی مہارتوں سے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف اس میدان میں خودمختار ہے بلکہ پرعزم اور پائیدار پالیسی پر گامزن ہے۔ یہی وہ روش ہے جس نے پاکستان کو آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ عالمی سطح پر اس کے جوہری پروگرام کو اطمینان اور اعتماد کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور یہ عالمی اظہار اعتماد اس بات کا بھی مظہر ہے کہ پاکستان ذمے دار جوہری ریاست کی حیثیت سے عالم اسلام کی سطح پر کسی بھی فوجی اتحاد کی قیادت کر سکتا ہے۔