ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست ہی مسئلے کا حل ہے

منگل کی شام سے اقوام متحدہ کی 80ویں سالانہ جنرل اسمبلی کا آغاز ہوچکا ہے اور عالمی رہنما باری باری اجلاس کے مختلف سیشنوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان سطور کی ا شاعت تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب ہوچکا ہوگا۔ اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اہم ترین موضوع اور ایجنڈا مسئلہ فلسطین کا حل ہے۔ پیر کے روز اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں سعودی عرب اور فرانس کی صدارت میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دنیا کے بیشتر ممالک کے سربراہان یا نمایندوں نے شرکت کی، اس اجلاس میںفرانس نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا اور وہ یہ منصفانہ اقدام کرنے والے ممالک کی فہرست میں تازہ ترین ملک بن گیا ہے۔

اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے فرانس کے صدر میخائل میکرون نے” نیویارک اعلامیہ” کی اہمیت پر زور دیا، جسے جنرل اسمبلی کی غیر معمولی حمایت حاصل ہوئی اور اسے پرتشدد جھڑپوں اور بار بار ہونے والی جنگوں کے خاتمے کے لیے ایک بنیادی اور عملی متبادل قرار دیا گیا۔ انہوں نے تمام ممالک سے اپیل کی کہ وہ عملی اقدامات کے ذریعے اس پر جلد عملدرآمد کریں۔ انہوں نے کہا کہ فرانس غزہ میں امن قائم کرنے کے مشن میں حصہ لینے کو تیار ہے۔ اجلاس میں مالٹا، لکسمبرگ اور بیلجیم نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل اتوار کے روز برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے تھے۔ اب اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 151 فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود فلسطین اقوام متحدہ میں صرف ”مبصر” کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ امریکا اسے مکمل رکنیت دینے میں رکاوٹ ہے۔ جرمنی اور اٹلی نے فی الحال فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا جبکہ دونوں ممالک میں عوام کی جانب سے اپنی حکومتوں پر فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ چنانچہ اٹلی میں پیر کے روز غزہ میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے ہوئے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر آزاد فلسطینی ریاست کی عالمگیر حمایت میں اضافہ اور متعدد یورپی ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلانات سے صہیونی لابی کی نیندیں اڑ گئی ہیں اور قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی حالت دیدنی ہے۔ صہیونی بھیڑیا نیتن یاہو اس صورت حال پر سخت پیچ و تاب کی کیفیت میں ہذیان گوئی پر اتر آیا ہے اور عرب و اسلامی ممالک کے بعد یورپی ممالک کو بھی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ادھر نیتن یا ہو کا جوڑی دار ڈونلڈ ٹرمپ بھی زبردست مخمصے کا شکار دکھائی دیتا ہے اور ان سطور کی تحریر کے وقت متعدد عرب واسلامی ممالک کے سربراہان سے امریکی صدر کی ملاقات متوقع ہے جس میں عالمی میڈیا کے مطابق غزہ کے مستقبل کے بارے میں اپنے امریکی منصوبے پر مسلم ممالک کی قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی جائے گی۔ توقع رکھی جانی چاہیے کہ مسلم ممالک کے رہنما اس اہم تاریخی موقع پر تھوڑی سی ہمت وجرأت کا مظاہرہ کریں گے اور غزہ پر اسرائیل اور امریکا کے قبضے کی کسی بھی ممکنہ صورت کی دوٹوک الفاظ میں مخالفت کی جائے گی۔

اس وقت عالمی منظر نامہ فلسطینیوں کے حق میں جارہا ہے، پوری دنیا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر متفق ہوچکی ہے، فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے منصوبے کو عالمی رائے عامہ نے مسترد کردیا ہے اور اسرائیل اور امریکا سفارت کاری کے میدان میں تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اب ان کی جانب سے پوری کوشش ہوگی کہ مسلم ممالک کو کسی طرح سے فریب دے کر غزہ پر بلا واسطہ یا بالواسطہ امریکی و اسرائیلی کنٹرول کے ٹرمپ کے منصوبے پر تعاون کے لیے آمادہ کیاجائے۔ اسلامی ممالک کو عالمی برادری کے موجودہ موقف اور مطالبے کا ساتھ دینا چاہیے اور فلسطین کی ایک مکمل آزاد اور خود مختار ریاست کی تشکیل کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہئیں۔

یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ عالمی برادری اور یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حیثیت و اہمیت فی الحال علامتی ہی ہے اور جب تک مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر صہیونی قبضہ چھڑایا نہیں جاتا اور اپنی سرزمین سے بے دخل کیے جانے والے لاکھوں فلسطینیوں کو واپسی کا حق نہیں دیاجاتا اور جب تک بیت المقدس کو فلسطین کا دار الحکومت تسلیم نہیں کیاجاتا، فلسطینی ریاست کی تشکیل کا خاکہ نامکمل رہے گااورانصاف کی تکمیل نہیں ہوسکے گی تاہم موجودہ معروضی حالات میں جبکہ اسرائیل امریکی سرپرستی میں بچی کھچی فلسطینی سرزمین بھی ہتھیانے کے درپے ہے اور قابض صہیونی ریاست کی جنونی حکومت گریٹر اسرائیل کے خواب دیکھنے لگی ہے، فلسطینی ریاست کو اصولی سطح پر تسلیم کیاجانا اور فلسطینی قوم کے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کی ضرورت پر پوری دنیا کا اتفاق رائے قائم ہونا بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتاہے۔ اس وقت اگر غزہ میں جنگ رک جاتی ہے اور فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک نمایندہ حکومت قائم ہوجاتی ہے تو اس کے بعد فلسطینیوں کے لیے اپنی سرزمین کا مقدمہ لڑنا اور فلسطین کے مسئلے کے پائے دار اور منصفانہ حل کے لیے سفارتی محاذ پر کوششیں جاری رکھنا آسان ہوجائے گا۔ دنیا اگر دو ریاستی حل کے نظریے کو درست مانتی ہے تو اسے فلسطینی ریاست کو بھی بین الااقوامی قوانین کی روشنی میں تمام ریاستی لوازمات کے ساتھ ہی تسلیم کرنا ہوگا۔

ظاہر ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست ہوا میں نہیں بنائی جاسکتی، نہ ہی فلسطینی اتھارٹی جیسے کسی بلدیاتی سیٹ اپ کو ریاست کانام دیا جاسکتا ہے۔ ریاست ہوگی تو اس کا مستقل دار الحکومت بھی ہوگا، بین الاقوامی سرحدیں بھی ہوں گی، اسے اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے فوج رکھنے کا حق بھی حاصل ہوگا۔ فرانس، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک بجاطور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر مشرق وسطیٰ کے مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے تاہم ہماری نظر میں انہیں اس کے ساتھ یہ بھی ادراک ہوناچاہیے کہ فلسطینی ریاست کے نام پر موجودہ فلسطینی اتھارٹی جیسی بے جان اور بے اختیار حکومت کے قیام سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ایک مکمل آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں فلسطینی مقاومت خود بخود ختم ہو جائے گی، اس لیے مغربی ممالک کی جانب سے فلسطینی مقاومتی تحریکوں کو مستقبل کی فلسطینی حکومت سے الگ رکھنے کا مطالبہ غیر حقیقی اور قبل ازوقت ہے۔ اس وقت تمام ممالک اور عالمی برادری کوایک مکمل طور پر آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر ہی زور دینا چاہیے۔