آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی سول سوسائٹی کے ایک وسیع اتحاد کے طور پر سامنے آئی جس میں تاجر، ٹرانسپورٹرز، وکلا، طلبہ اور اساتذہ شامل تھے جو مہنگائی، بجلی، آٹے اور گندم جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور ان کے نزدیک نظامی بدعنوانی اور اشرافیہ کی مراعات کے خلاف احتجاج کے لیے متحد ہوئے۔ ان کے احتجاج میں ہڑتالیں، شٹر ڈاؤن اور آزاد کشمیر اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ مذاکرات شامل تھے۔ مئی 2024ء میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی جب آزاد کشمیر حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے 23ارب روپے کے پیکیج کے ذریعے سبسڈی دینے اور اشرافیہ کی مراعات میں کمی کی پیشکش کی۔ تاہم کمیٹی کے بقول ان وعدوں پر عمل درآمد سست یا نامکمل ہونے کی وجہ سے عدم اطمینان پیدا ہوا۔
2025ء میں عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنی تحریک کو تیز کرتے ہوئے 38نئے مطالبات جاری کیے اور ان کے پورے نہ ہونے پر 29ستمبر سے مکمل شٹر ڈاؤن کا اعلان کیا۔ ان توسیع شدہ مطالبات میں نہ صرف معاشی شکایات بلکہ سیاسی اصلاحات بھی شامل تھیں جن میں سب سے زیادہ متنازع مطالبہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے آنے اور پاکستان میں مقیم ہونے والے کشمیریوں کے لیے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں 12مخصوص نشستوں کا خاتمہ تھا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا موقف ہے کہ یہ نشستیں جمہوری نمائندگی کو نقصان پہنچاتی ہیں تاہم یہ نشستیں علامتی اور آئینی وزن رکھتی ہیں۔ آزاد کشمیر کے 1974ء کے عبوری ایکٹ میں شامل یہ نشستیں ریاست جموں و کشمیر کے اصل مہاجرین کی نمائندگی کے لیے مختص کی گئی ہیں جو پاکستان کے اس موقف کو تقویت دیتی ہیں کہ یہ خطہ ایک متنازع علاقہ ہے اور آزاد کشمیر پاکستان کا صوبہ نہیں ہے۔ ان نشستوں کو ختم کرنے سے کشمیر پر پاکستان کی بین الاقوامی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے، اس کی قانونی دلیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور بے گھر کمیونٹیز کو الگ تھلگ کیا جا سکتا ہے جن کے اپنے آبائی وطن سے مضبوط سیاسی، جذباتی اور معاشی تعلقات ہیں۔ عالمی سطح پر مہاجرین کی قانون ساز اداروں میں نمائندگی موجود ہے۔ فلسطینی قومی کونسل میں تارکین وطن فلسطینی شامل ہیں، تبتی جلاوطن حکومت تبتی مہاجرین کو نمائندگی دیتی ہے اور بوسنیا اور شمالی آئرلینڈ نے پسماندہ گروہوں کے لیے میکانزم اپنائے ہیں۔ یہ مثالیں بے گھر کمیونٹیز کے لیے علامتی اور عملی سیاسی نمائندگی کو یقینی بنانے کے وسیع تر رجحان کو واضح کرتی ہیں اور آزاد کشمیر کی مہاجرین کی نشستیں اس پیٹرن میں فٹ بیٹھتی ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا ایک اور حساس مطالبہ آزاد کشمیر کے سیاست دانوں اور سرکاری افسران کی مراعات اور سہولیات کو ختم کرنا ہے۔ اگرچہ عوامی ایکشن کمیٹی وسیع معاشی مشکلات کے دوران اشرافیہ کے لیے پُرتعیش طرز زندگی کے اخلاقی مسئلے کو اجاگر کرتی ہے لیکن ماہرین مکمل سکیورٹی اور آپریشنل سہولیات کے خاتمے کی صورت میں متعدد نقصانات کا اظہار کرتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے قریب آزاد کشمیر کا جغرافیائی، اسٹرٹیجک مقام اس کے رہنماؤں کو ہائی رسک ہدف بناتا ہے اور اس علاقے میں بھارتی انٹیلی جنس آپریشنز طویل عرصے سے خطرات پیش کر رہے ہیں۔ تحفظ اور ضروری وسائل کو ہٹانے سے رہنماؤں کو حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، پاکستان کی تصویر کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور حکمرانی غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مراعات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے ایک معقول اور ضروریات پر مبنی نظام متعارف کرایا جانا چاہیے، جو مؤثر حکمرانی کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے جوابدہی کو یقینی بنائے۔
اگرچہ پرامن احتجاج ایک بنیادی حق ہے لیکن اسے ریاست پر دباؤ ڈالنے کے لیے بنیادی ذریعہ کے طور پر استعمال کرنا ادارہ جاتی حکمرانی کو کمزور کرنے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ آزاد کشمیر پہلے ہی سبسڈی والے آٹے اور بجلی جیسی مراعات سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اسے پاکستان کے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ وفاقی توجہ حاصل ہے۔ پاکستان کو شدید معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں قرض، مہنگائی اور محدود مالیاتی وسائل شامل ہیں اور ایسے میں ہر خطے سے ہر مطالبے کو پورا کرنا مشکل ہے۔ اگر ہر صوبہ یا خطہ اپنے مقامی وسائل پر خصوصی حقوق کا دعویٰ کرنا شروع کر دے جیسے کہ آزاد کشمیر ہائیڈرو الیکٹریسٹی کے ساتھ کرتا ہے تو دوسرے بھی قدرتی وسائل کی پیداوار کی بنیاد پر اسی طرح کے حقوق کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یہ امر ایک متحد فیڈریشن کے تصور کو ختم کرسکتا ہے، اندرونی تقسیم کو ہوا دے سکتا ہے، قومی اتحاد کو غیرمستحکم کرسکتا ہے اور پروپیگنڈے اور ہائبرڈ جنگ کے ذریعے بیرونی استحصال کو دعوت دے سکتا ہے۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی حقیقی عوامی مفادات کی نمائندگی نہیں کرتی۔ یہ خدشات سامنے آئے ہیں کہ اس کے مقاصد میں ذاتی مفاد، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور یہاں تک کہ ممکنہ طور پر بھارت جیسی دشمن قوتوں سے گٹھ جوڑ شامل ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی روابط کے الزامات، لیک شدہ سائفرز اور آڈیو ریکارڈنگز عوامی ایکشن کمیٹی کے بعض اراکین اور بھارتی انٹیلی جنس کے درمیان تعلقات کی شنید دیتے ہیں۔ ان دعوؤں نے عوامی اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
مزید یہ کہ عوامی ایکشن کمیٹی کو مقامی مارکیٹ اور دکانداروں کی طرف سے روزمرہ کے معاشی استحصال کو نظرانداز کرنے اور عوام کی صحت کو متاثر کرنے والی ناقص معیار کی اشیا فروخت کرنے کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تحریک کی سیاسی مطالبات پر توجہ جبکہ بنیادی صارفین اور صحت کے مسائل کو نظرانداز کرنا عام شہریوں کی طرف سے شدید تحفظات کا باعث بنا ہے۔ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے والی بات یہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کو نیشنلسٹ یا پاکستان مخالف عناصر کی جانب سے ہائی جیک کیا جارہا ہے۔ ان چند گروہوں نے اس پلیٹ فارم کو پاکستان مخالف بیان بازی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا ہے جو آزادکشمیر کی سکیورٹی، ترقی اور فلاح و بہبود میں پاکستان کے تعاون کو نظرانداز کرتے ہیں۔ اس طرح کے بیانات کے باوجود آزادکشمیر کے لوگوں کی اکثریت پاکستان سے جذباتی اور سیاسی طور پر منسلک ہے جو ریاست اور اس کے اداروں خاص طور پر فوج کے ساتھ دلی محبت رکھتی ہے، جس نے تنازعات اور آفات کے دوران مثالی مدد فراہم کی ہے۔
اِن پیش رفتوں کو دیکھتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کو پاکستان مخالف اداکاروں اور غیرملکی اثر و رسوخ کے الزامات سے خود کو دور کرنا چاہیے۔ اگر وہ بے گناہ ہے تو اسے عوامی سطح پر الزامات کی تردید کرنی چاہیے اور تحقیقات میں مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ ساکھ بحال کرنے کے لیے شفافیت ضروری ہے۔ احتجاج اور شٹر ڈاؤن کا سہارا لینے کے بجائے عوامی ایکشن کمیٹی کو حکومت کے نمائندوں، ماہرین اور سول سوسائٹی کے ساتھ تعمیری مذاکرات میں شامل ہونا چاہیے۔ حکومت کو بھی سنجیدگی اور اعلیٰ ظرفی سے کام لینا چاہیے، اشتعال انگیز بیان بازیوں سے گریز کرنا چاہیے اور جائز مسائل پر مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرنی چاہیے۔ آزاد کشمیر کے لوگ امن، ترقی اور استحکام چاہتے ہیں نہ کہ تقسیم یا دشمنی۔ انہوں نے ایک متنازع خطے میں رہنے کی مشکلات کو برداشت کیا ہے اور وہ ترقی، ملازمتوں، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ سیاسی تحریکوں کو خلل ڈالنے یا غیرملکی ایجنڈوں کا آلہ کار بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ قومی اتحاد، ادارہ جاتی طاقت اور معاشی حقیقت پسندی کو اصلاحاتی کوششوں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ دباؤ پر مبنی ہتھکنڈے اگر معمول بن جاتے ہیں تو یہ نہ صرف آزادکشمیر بلکہ پوری فیڈریشن کو غیرمستحکم کردیں گے۔ صرف تعاون، جوابدہی اور دیانتدارانہ شمولیت کے ذریعے ہی یہ خطہ اس سمت میں آگے بڑھ سکتا ہے جو آزاد کشمیر اور پاکستان دونوں کے لیے فائدہ مند ہو۔