امت انگڑائی لے رہی ہے!

یہ 1969کا سال تھا جب اسرائیلی درندوں نے مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگائی اور اس کے نتیجے میں پہلی بار امت مسلمہ میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ اگر امت متحد نہ ہوئی تو اس کے مقدسات محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس احساس کے نتیجے میں او آئی سی وجود میں آئی مگر نصف صدی گزرنے کے باوجود مسجد اقصیٰ اور اس کے باشندے آج بھی خون اور بارود میں نہا رہے ہیں۔ اب جب اسرائیل نے غزہ سے قطر تک، شام سے لبنان تک اور ایران سے یمن تک سارے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے امت ایک بار پھر انگڑائی لے رہی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کا حالیہ دفاعی معاہدہ اسی بیداری کے نتیجے میں ظہور میں آیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا یہ معاہدہ ایک علامتی پیغام ہے کہ مسلم دنیا اب اپنے دفاع کو مشترکہ طور پر دیکھنا چاہتی ہے اور ان میں مشترکہ دشمن سے مشترکہ خطرے کا احساس سنجیدہ رخ اختیار کر رہا ہے۔ ایران، ترکیہ اور قطر جیسے ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلی اس بات کی غماز ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن نئے سرے سے ترتیب پا رہا ہے اور پاکستان سعودی معاہدہ اس توازن کی ایک کڑی ہے۔ یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل فلسطین کے نہتے عوام پر بمباری کر رہا ہے، ہزاروں معصوم بچے اور عورتیں شہید ہو چکی ہیں، انسانی حقوق کے علمبردار دہرے معیار کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ جیسے ادارے بے بس ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کی شراکت یہ پیغام دے رہی ہے کہ خطے میں طاقت کا نیا توازن ابھر رہا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کا ایک دوسرے کے قریب آنا اسرائیل کے ساتھ اس کے پشت پناہوں کے لیے بھی واضح پیغام ہے۔

یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا پاکستان اور سعودی عرب کا اتحاد واقعی دور رس ہوگا اور کوئی مشترکہ حکمت عملی بنا پائے گا؟ اگرچہ ماضی میں مسلم دنیا کے اتحاد کے دعوے اکثر کھوکھلے نکلے ہیں، عرب ممالک کے اختلافات اور ذاتی مفادات نے کبھی مسلم امہ کو یکجا نہیں ہونے دیا لیکن اب کی بار صورت حال مختلف ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اتنی بھیانک ہو چکی ہے کہ اس نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ غزہ کے ملبے تلے دبے معصوم بچوں کی لاشیں، بھوکے پیاسے مظلوموں کی چیخیں اور مغربی دنیا کی بے حسی نے مسلم دنیا کے عوام میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے اس بار ہونے والا معاہدہ صرف معاہدہ نہیں بلکہ عملی قدم اور امت کے دلوں کی ترجمانی ہوگا۔ اس معاہدے سے ایک طرف سعودی عرب کو مضبوط سکیورٹی گارنٹی ملی ہے اور اس کے ساتھ دیگر خلیجی ریاستوں کو بھی اعتماد حاصل ہوا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے مغربی طاقتوں پر انحصار کے بجائے اپنے مسلم بھائیوں کی طرف دیکھیں۔ دوسری طرف پاکستان کے لیے بھی یہ معاہدہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اس کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اپنی اہمیت اور حیثیت کو منوائے۔ اس کے ساتھ پاکستان کو اس امر کے لیے بھی تیار رہنا ہوگاکہ اس معاہدے کے نتیجے میں اس پر عالمی دباؤ کئی گنا بڑھے گا۔ امریکا اور یورپ سمیت بین الاقوامی ادارے اس پر سخت ردعمل دے سکتے ہیں۔ امریکا اس معاہدے کو خلیجی خطے میں اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے کیونکہ وہ خلیج میں ہمیشہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت بھی اس معاہدے کو اپنے خلاف ایک نئی صف بندی کے طور پر دیکھ رہا ہے، خاص طور پر اس وقت جب وہ پہلے ہی پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں مبتلا ہے۔ بھارت کے نزدیک یہ معاہدہ خطے کے اسٹریٹجک توازن کو مزید غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ عملی سطح پر بھی کئی چیلنجز موجود ہوں گے مثلا مشترکہ فوجی آپریشنز، لاجسٹک سپورٹ اور فیصلہ سازی کا طریقہ کار وغیرہ۔

پاکستان میں داخلی سطح پر بھی اس معاہدے کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک طرف یہ معاہدہ پاکستان کے لیے سیاسی اور سفارتی طور پر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کو اپنے دفاعی بجٹ اور وسائل پر دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر یہ معاہدہ عملی سطح پر فعال ہوتا ہے تو پاکستان کو اپنے دفاعی اخراجات بڑھانے ہوں گے۔ البتہ اس کے بدلے سعودی عرب کی طرف سے مالی تعاون اور سرمایہ کاری کے امکانات بھی پیدا ہوں گے جو پاکستان کی معیشت کے لیے سودمند ثابت ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو شفاف بنائے اور اس کے پھیلاؤ کو محدود رکھے۔ بھارت بھی اس معاہدے کو اپنے خلاف سمجھے گا اور ممکن ہے کہ پاکستان بھارت تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو۔ مختصر یہ کہ پاکستان کے لیے یہ معاہدہ دفاعی ٹیکنالوجی، فوجی تربیت اور خطے میں اثرورسوخ کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ ایک طرف امید کی کرن ہے تو دوسری طرف ذمہ داری کا امتحان بھی۔ اس کا اصل امتحان تب ہوگا جب دونوں ممالک عملی طور پر ایک دوسرے کے دفاع میں کھڑے ہوں گے۔ یہ معاہدہ اس بات کا اعلان ہے کہ مسلم دنیا صرف قراردادوں اور بیانات تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اپنے دفاع کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کو تیار ہے۔ یہ معاہدہ اگر محض سرمایہ کاری تک محدود رہا تو اس کی افادیت کم ہوگی لیکن اگر یہ فلسطین کے تناظر میں ایک عملی اتحاد میں ڈھل گیا تو پھر تاریخ اسے ایک سنگ میل کے طور پر یاد رکھے گی۔ اگر پاکستان اور سعودی عرب حکمتِ عملی، شفافیت اور ذمہ داری کے ساتھ اس معاہدے کو آگے بڑھاتے ہیں تو یہ نہ صرف موجودہ اسرائیل فلسطین بحران کا ایک جواب ہوگا بلکہ مستقبل میں مسلم دنیا کے اتحاد اور تحفظ کی ایک نئی بنیاد بھی ڈال سکتا ہے۔ اسرائیل جس طاقت کے گھمنڈ میں ہے، وہ گھمنڈ صرف اسی وقت ٹوٹ سکتا ہے جب مسلم دنیا اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر لے اور پاکستان اور سعودی عرب کا اس معاہدے کے نتیجے میں قریب آنا اس اتحاد کی طرف پہلا قدم ہے۔