میں نے کنکھیوں سے فاختہ کی طرف دیکھا۔ وہ انگور اور ٹکوما کی بیلوں سے ڈھکے ہوئے اس بلند چبوترے پر بیٹھی تھی جہاں تک رسائی ذرا کم کم ہے۔ گھنی بیلوں اور پتوں نے اس چبوترے پر چھت اور دیواریں سی بنا کر ایک چھوٹا کمرہ بنا دیا ہے۔ اس محفوظ جگہ کافی پرندے آتے جاتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آوارہ بلے بلیاں بھی یہ بات جانتے ہیں۔ اس لیے یہ جگہ پرندوں کیلئے اسی وقت محفوظ ہے جب تک چار پیروں والے دشمن یہاں نہ ہوں۔ فاختہ کے اس جوڑے نے حال ہی میں اپنے گھونسلے کیلئے ایک محفوظ جگہ ڈھونڈ لی ہے۔ یہ جگہ سفید اور سرخ پھولوں والی ”گھنی بیل کلورو ڈنڈرون” کے اندر ہے۔ بیل کے اندر ایک دروازہ سا بنا کر ذرا گہرائی میں ان کا گھونسلا ہے جو بلیوں کی پہنچ سے دور ہے۔ آج کل وہ گھونسلے کیلئے تنکے جمع کر رہے ہیں۔ میں چپکے چپکے دیکھتا رہا۔ فاختہ کا جوڑا لان میں اترا۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کا دانہ پانی کہاں رکھا ہے۔ ابھی دانہ پانی پر بڑے پرندے مثلاً کبوتر نہیں آئے تھے، اس لیے ناشتے کا یہی وقت بہتر تھا۔ انہوں نے سیر ہو کر دانہ کھایا۔
بہت مدت سے معمول سا بن گیا ہے کہ صبح سویرے اٹھ کر لان کے ایک گوشے میں بیٹھ جاتا ہوں۔ ایسا گوشہ جس میں آتے جاتے مہمان پرندوں کو خطرہ محسوس نہ ہو۔ زمین سے دو تین فٹ کی اونچائی پر مٹی کے دو برتن رکھے رہتے ہیں۔ ان میں صبح ان مہمانوں کیلئے باجرہ، کنگنی اور دوسرے دانے ڈال دیے جاتے ہیں۔ بچا ہوا کھانا، روٹی کے ٹکڑے اور چاول وغیرہ بھی کئی مہمانوں کے پسندیدہ ہیں اس لیے وہ بھی ایک رکابی میں ایک طرف رکھ دیے جاتے ہیں۔ گرمی کی شدت ختم ہوتی جا رہی ہے اور ہوا میں خنکی محسوس ہونے لگی ہے۔ ہم ستمبر کے آخر میں پہنچ رہے ہیں اور دیسی مہینوں میں اسوج شروع ہو چکا۔ ویسے تو ہمیشہ اسوج میں موسم سردی کی طرف رخ کرنے لگتا ہے لیکن اس سال بارشوں نے بھی موسم کی تبدیلی میں کافی حصہ ڈالا ہے۔ اب نہ زیادہ گرمی ہے اور نہ سردی۔ یہ ان پرندوں کو نئے موسم کی تیاری کرتے دیکھنے کا بہترین وقت ہے۔ ایک ڈیڑھ مہینے بعد سردی بڑھنے لگے گی تو باغ میں گونجتی چہکاریں خاموش ہونے لگیں گی۔ ہم کیا سردی منائیں گے جو پرندے سردی مناتے ہیں۔ مہینوں پہلے ایسی باقاعدہ تیاری کرتے ہیں جیسے بڑے سفر کی تیاری ہوا کرتی ہے۔ اس لیے خزاں ان کی چہکاروں کا آخری موسم ہے۔ صبح صبح یہ مہمان میرے گھر اترتے ہیں تو ایک ڈیڑھ گھنٹے کا خوبصورت وقت مجھے دے جاتے ہیں۔ اب مجھے کافی پرندوں کے معمول اور عادتوں کا علم ہو چکا ہے۔ فاختاوں کا یہ خاکستری جوڑا اس جوڑے سے الگ ہے جن کی دم میں کالی جھالریں ہیں۔ وہ ابھی نہیں آئے، وہ ذرا دیر سے ناشتہ کرنے کے عادی ہیں۔ جتنی دیر میں فاختہ کے جوڑے نے پیٹ بھرا، باقاعدہ آنے والے شیرازی کبوتروں کا پہلا جوڑا بام پر آکر بیٹھ گیا۔ یہ نیلے، سرمئی، سبز پروں کے کبوتر ہیں جن میں نروں کے گلے میں گلابی جامنی کنٹھی چمکتی رہتی ہے۔ یہ کسی اور گھر یا باغ سے آتے ہیں اور دن میں دو تین بار دانے پانی کیلئے یہاں آنا ان کا معمول ہے۔ ان کا آنا اس بات کا اشارہ ہے کہ فاختاؤں کو اپنا ناشتہ ختم کرکے دسترخوان سے اٹھ جانا چاہیے۔ پیٹ ویسے بھی بھرا جا چکا تھا اور اب گھونسلے کی تعمیر کا وقت تھا۔ نر اڑ کر کسی نامعلوم منزل کی طرف نکل گیا۔ فاختہ نے زمین پر گری ہوئی چھوٹی سی ٹہنی اٹھائی اور بیل کی سرنگ سے گھونسلے میں داخل ہو گئی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ وہی ہے جسے پنجاب میں گھگھی اور فارسی میں قُمری کہتے ہیں لیکن میرے والد جو قمریاں لائے تھے وہ تو شربتی آنکھ والی تھیں۔
شیرازی کبوتر اتر آئے لیکن ابھی انہوں نے کھانا شروع کیا ہی تھا کہ سفید اور چتکبرے کبوتروں کے جوڑے بھی آ موجود ہوئے۔ یہ بھی کسی قریب گھر سے آیا کرتے ہیں۔ اس میں چتکبرا نر ذرا بڑا ہے اور وہ اس کا فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ وہ ہمراہی کبوتروں کے ساتھ اترا اور پر پھلا کر زمین پر گھومنے لگا۔ غٹر غوں کی یہ آوازیں اگر ڈی کوڈ ہوتیں تو یہی کہتیں کہ اس دانے پانی پر سب سے زیادہ حق میرا ہے، چلو بھاگو یہاں سے۔ زیادہ چیلنج نر کبوتروں کیلئے ہے جو کبھی اس کا حق مان لیتے ہیں کبھی لڑ پڑتے ہیں لیکن دانہ پانی باری باری سب کو نصیب ہو جاتا ہے۔ ان سادہ دیسی چڑوں اور چڑیوں کو بھی جو ان سب کے بعد یا سب سے دور رہ کر رزق کیلئے آتے ہیں۔ یہ سب پرندے اگرچہ مجھ سے اب مانوس ہو گئے ہیں کہ بے ضرر سا بندہ ہے، ایک طرف بیٹھا رہتا ہے، چلو بیٹھا رہنے دو لیکن ذرا سی ہل جل ہوئی، خطرہ محسوس ہوا تو یہ گئے۔
اسی دوران میری من پسند بہت چھوٹی، بہت خوبصورت، رنگا رنگ چمکیلے پروں والی چڑیا بھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ٹکوما پھولوں کا رس لینے آگئی ہے۔ انہیں دانے سے زیادہ رغبت نہیں۔ میں یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے پروں میں کتنے رنگ ہیں اور انہیں کیا نام دیا جائے۔ زرد چشم، سیہ رنگ، نیل دم چڑیا کہہ کر بھی بات بنتی نہیں۔ کبھی اس میں جامنی رنگ جھلکتا ہے اور کبھی سرخ گلال۔ کبھی ہرا اور کبھی فیروزی۔ یہ چھوٹی چھوٹی گھنٹیوں جیسے زرد گلابی ٹکوما پھولوں کے کٹوروں سے رس اس طرح پیتی ہے کہ اس دوران اس کے پر مسلسل پھڑپھڑاتے رہتے ہیں۔ یہ ایک پھول سے دوسرے پھول اور پھر تیسرے پھول پر ایسے مزے سے آتی جاتی ہے جیسے پھولوں پر تتلیاں منڈلاتی ہیں۔ اس چڑیا کو پرندوں کی دنیا کی تتلی کہنا چاہیے۔ مجھے یہ ہیمنگ برڈ کے گھرانے کی کوئی چڑیا لگتی ہے۔ سنا ہے ہیمنگ برڈ دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہے، پانچ سنٹی میڑ لمبا اور دو گرام وزن والا۔ سنا ہے ایک سیکنڈ میں ہیمنگ برڈ 99بار پَر پھڑپھڑاتا ہے۔ ہماری یہ چڑیا اتنی چھوٹی نہ سہی، لیکن ہے اسی قبیلے کی۔
امرود اور کینو کے درختوں سے بلبلوں کے دو تین جوڑے اڑ کر آگئے ہیں۔ ان بلبلوں کے بزرگوں سے میری آبائی گھر سے اب تک شناسائی ہے۔ یہ مجھے اس گھر میں بھی صبح سویرے بیدار کرتے تھے اور اِس گھر میں بھی۔ معلوم نہیں یہاں یہ بلبلیں پہلے کس جگہ رہتی ہوں گی، لیکن یہاں انہوں نے گھنے پیڑ دیکھے تو یہیں بسیرا کر لیا۔ انہی کیلئے تو کہا تھا:
بند آ نکھوں پہ دیں صبح نے دستکیں، چمپئی کاسنی پھول چنتے ہوئے
رفتہ رفتہ میں بیدار ہونے لگا ان پرندوں کی چہکار سنتے ہوئے
بلبل کھلی جگہوں پر رہنا پسند نہیں کرتے، انہیں درختوں کے بیچ اس طرح چہکنا اچھا لگتا ہے کہ معلوم ہی نہ ہو سکے کہ چہکار آ کہاں سے رہی ہے۔ یہ ذرا سی دیر دانہ پانی کیلئے اترتے ہیں اور پھر اپنی پناہ گاہوں میں واپس ہو جاتے ہیں۔ کوئلیں ان سے زیادہ نڈر ہیں۔ زیادہ گھبرائے بغیر دانہ کھاتی رہتی ہیں۔ لیکن معلوم نہیں جنہیں ہم شہری کوئلیں کہتے ہیں، وہ اصل میں کوئلیں ہیں بھی یا نہیں؟ دیہات میں شاید انہی کو لالی کہتے ہیں۔ وہی لالی جس کیلئے مجید امجد نے لکھا تھا:
کالی چونچ اور نیلے پیلے پنکھوں والی چوں چوں چچر چچر چچلائی لالی
پرندے اپنا ناشتہ کرکے اڑتے جارہے ہیں۔ میر ابھی اب کام کا وقت ہے۔ میں گھر سے نکلوں گا، اس جگہ جاؤں گا جہاں میرے رزق کے برتن رکھے گئے ہیں۔ ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف جانا ہے۔ یہ دو پایوں کی دنیا ہے۔ وہاں مجھ سے کچھ بڑے ہوں گے جو مجھے رزق سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے۔ کچھ چھوٹے ہوں گے جو مجھ سے ڈر کر دور رہیں گے۔ میں کچھ کا حق مان لوں گا، کچھ سے لڑ پڑوں گا۔ یہاں بھی رزق کا سارا معاملہ طاقت پر ہے۔ کس میں زیادہ طاقت ہے زیادہ رزق سمیٹ لینے کی۔ دانہ پانی بہرحال ہر ایک کو مل ہی جاتا ہے۔ دن ابھی طلوع ہوا ہے، غروب ہونے لگے گا تو پرندے اور دو پائے، سب اپنے آشیانوں ٹھکانوں کی طرف لوٹیں گے۔ ایک اور رات کی آغوش میں۔ ایک نئے دن کے انتظار میں۔