رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے تعلق کے تقاضے

پانچویں قسط:
پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب کے لیے نیا ضابطہ مقرر فرمایا: ”اے ایمان والو! تم (نبی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) ”رَاعِنا” مت کہا کرو، بلکہ یہ کہا کرو: اُنْظُرْنَا (یارسول اللہ! ہم پر توجہ فرمائیے) اور اُن کے (ارشادات کو پہلے ہی) توجہ سے سنا کرو، (البقرة: 104)”۔ مقامِ غور ہے: ”رَاعِنَا” کے معنی بھی درست ہیں، شانِ رسالت کے مطابق ہیں اور صحابۂ کرام کی نیت بھی درست تھی، لیکن کوئی بدطینت شخص لفظی ہیرپھیر کر کے یا زبان کو لوچ دے کر اسے اہانت آمیز معنی میں استعمال کر سکتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کی شان میں ایسے ذومعنی کلمات استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔

نیز اسی کی بابت سورة النسآء میں فرمایا: ”بعض یہودی اللہ کے کلام کو اُس کے اصل مقامات سے پھیر دیتے ہیں اورکہتے ہیں: ”ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور کہتے ہیں: سنیے! آپ کو سنایا نہ جائے” اور وہ اپنی زبانوں کو بَل دے کر اور دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے ”رَاعِنَا” کہتے ہیں اور اگر وہ کہتے :ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور آپ ہماری بات سنیے اور ہم پر نظرِ کرم فرمائیے تو یہ شعار اُن کے لیے بہتر اور درست ہوتا، لیکن اللہ نے اُن کے کفر کے سبب اُن پر لعنت فرمائی ہے، پس اُن میں سے کم لوگ ہی ایمان لائیں گے، (النسآئ: 46)”۔

موصوف کہتے ہیں: ” اللہ کا تعارف کرانا نبی کا احسان نہیں ہے، بلکہ نبی کے ذریعے اپنا تعارف کرانا اللہ کا احسان ہے”۔ اس کی بابت عرض ہے: انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرماکر اللہ تعالیٰ نے یقینا اپنے بندوں پر احسانِ عظیم فرمایا اور اس کا ذکر آل عمران: 164میں موجود ہے اور اسی مضمون کو البقرة: 129اور الجمعة: 2میں بیان فرمایا، کیونکہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین کی دعوت دینا ہے اور ادیانِ باطلہ سے بچانا ہے۔ بندوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کی تبلیغ کی برکت سے ہی معبودانِ باطلہ کو چھوڑ کر اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کا راستہ اختیار کیا ہے اور نارِ جہنم سے نجات حاصل کی ہے، کیا یہ انبیائے کرام علیہم السلام کا اپنی امتوں پر احسانِ عظیم نہیں ہے کہ وہ سر جو باطل معبودوں اور بتوں کے آگے جھکے ہوئے تھے، انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے کی سعادت سے نوازا۔ منصِب رسالت اور اس کے فرائض کا قرآنِ کریم میں جا بجا ذکر موجود ہے اور اس کے من جملہ مقاصد میں سے دینِ حق اسلام کو باطل ادیان پر غالب کرنا ہے، نیز آیاتِ الٰہی کی تلاوت، تزکیۂ نفوس اور تعلیمِ کتاب وحکمت ہے۔

”نفل” کے معنی ہیں: ”عطیہ دینا، زائد عطیہ دینا، مالِ غنیمت بانٹنا، واجبات اور ضروریات سے زائد کام، مالِ غنیمت، ہبہ، بخشش، زیادتی، بندے کا اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ عبادات سے اپنے ذوق کے تحت یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں زائد عبادت کرنا ”۔ وہی شخص نفل کے معنی ”فالتو” کرتا ہے، فالتو ہندی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: ”جو مصرف میں نہ آئے ایسے ہی پڑا رہے، ضرورت سے زیادہ، جو کسی کام کانہ ہو، جس سے کسی قسم کا کام نہ چلتا ہو، غیر ضروری، فاضل، بیکار، ردّی، نکما، پہاڑی لوگ، قلی، مزدور”۔ ان سب معانی میں تحقیر اور بے وقعت ہونے کے معنی پائے جاتے ہیں، جبکہ نفل بے وقعت چیز نہیں ہے، بلکہ بندے کا خوش دلی سے اللہ تعالیٰ کی مقررہ عبادت سے زائد عبادت بجا لانا ہے، جو بندے کی سعادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا سبب ہے۔

حدیث پاک میں ہے: ”قیامت کے دن اعمال میں سب سے پہلے نماز کی جواب طلبی ہوگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہمارا بزرگ وبرتر پروردگار فرشتوں سے کہتا ہے، حالانکہ وہ خود (اس حقیقت کوفرشتوں سے) بہتر جانتا ہے: میرے بندے کی (فرض) عبادت کو دیکھو، آیا یہ کامل ہے یا اس میں کوئی کمی رہ گئی ہے، پس اگر وہ عبادت کامل ہے تو اُس کے لیے پورا اجر لکھ دیا جاتا ہے اور اگر اُس (فرض) میں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو فرماتا ہے: ذرا دیکھو! میرے بندے کی کوئی نفلی عبادت ہے، پس اگر (اُس کے نامۂ اعمال میں) کوئی نفلی عبادت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے نفلوں میں سے اس کی فرض عبادت کی کمی کو پورا کر دو، پھر اسی طرح دیگر اعمال کا حساب ہوتا ہے، (ابودائود: 864)”۔ استقبالِ رمضان کی بابت ایک طویل خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضانِ مبارک میں نفل عبادت کا اجر فرض کے برابر قرار دیا ہے۔ اس پر ”فالتو” کی پھبتی کسنا بندے کی طرف سے بہت بڑی جسارت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے عُجب اور تکبر سے محفوظ فرمائے۔

اگرچہ ہر نبی غیرِ نبی سے، خواہ اُس کا مرتبہ دین میں کتنا ہی بڑا ہو، علی الاطلاق افضل ہے، تاہم انبیائے کرام علیہم السلام کے درمیان درجات میں باہم تفضیل وتفاضل موجود ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”یہ سب رسول، ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا اور بعض کو (سب پر) کئی درجے بلندی عطا فرمائی اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو روشن معجزات عطا کیے اور ہم نے پاکیزہ روح جبرائیل کے ذریعے اُن کی مدد فرمائی، (البقرة: 253)”۔ (جاری ہے)