مصنوعی ذہانت اور مستقبل کے دارالافتاء

آج کل کے بڑے اور معتبر دارالافتاء کے کام کا طریقہ کاریہ ہوتا ہے کہ سائلین اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل دارالافتاء سے پوچھتے ہیں اور پھر دارالافتاء کے اندر مفتیانِ کرام شرعی فتاویٰ صادر فرماتے ہیں اور سائلین کا جواب تحریری صورت میں دیتے ہیں۔ سائلین کے سوال پوچھنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں مثلاً سائل (مستفتی۔ یعنی سوال کرنے والا) براہ راست دارالافتاء کے کھلنے کے اوقات کار میں دارالافتاء حاضر ہو جاتا ہے اور اپنے سوال پیش کر دیتا ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ دارالافتاء میں خط، فیکس، ای میل اور فون کے ذریعے بھی سائلین کے سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ نیز بعض صورتوں میں بڑے و معتبر دارالافتاء کی ایک ویب سائٹ ہوتی ہے جو عوام الناس کا اس دارالافتاء سے رابطہ کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ کوئی بھی شخص اس دارالافتاء کی ویب سائٹ پر آتا ہے، نئے سوال پوچھنے پر کلک کرتا ہے، اپنا مطلوبہ سوال لکھتا ہے اور پھر وہ سوال دارالافتاء میں جمع کروا دیتا ہے۔ وہ سوال دارالافتاء کو موصول ہونے پر دارالافتاء میں موجود آئی ٹی کی ٹیم اس سوال کا پرنٹ آؤٹ نکال کر سائل کے کوائف کا اندراج دارالافتاء کے رجسٹر میں ریکارڈ کر دیتی ہے، تاریخِ وصولی کا اندراج کر دیتی ہے اور اس سوال کو ایک فتویٰ نمبر آلاٹ کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ سوال دارالافتاء میں موجود مفتیانِ کرام کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔

بعض صورتوں میں دارالافتاء میں موجود تخصص کی طلبہ کی تمرین کے لیے وہ سوالنامہ ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو اس سوال کا جواب مرتب کرتے ہیں، اور پھر وہ جواب مصحین، اور مصدقین دارالافتاء کی نظروں سے گزرتا ہوا آخر میں رئیس و مفتی دارالافتاء کے دستخط سے جاری ہو جاتا ہے۔ پھر یہ فتویٰ اس دارالافتاء کی آئی ٹی کی ٹیم اس دارالافتاء کی ویب سائٹ پر جاری کر دیتی ہے اور سائل کو بھی اس فتویٰ کی کاپی مہیا کر دی جاتی ہے۔ اس سارے عمل میں انٹرنیٹ اور ویب سائٹ کا کردار صرف سوال کو سائل سے وصول کر کے دارالافتاء کو مہیا کرنا اور پھر مفتیانِ کرام کی طرف سے جواب آنے کے بعد اس فتویٰ کو سائل اور دیگر عوام الناس تک پہنچانا ہوتا ہے۔ نیز اگر سائل کی جانب سے خط کی صورت میں سوال پوچھا گیا ہے تو جواب خط یا ای میل کے ذریعے سائل کو مہیا کر دیا جاتا ہے۔

بعض بڑے، مستند اور معتبر دارالافتاء اپنے جاری کیے گئے فتاویٰ جات ایک منظم طریقے سے مختلف عنوانات کے تحت اپنی ویب سائٹ پر عوام الناس کو مہیا کرتے ہیں جس سے عوام الناس کو سوالات کے جواب ڈھونڈنے میں کافی سہولیت میسر آجاتی ہے۔ بعض دارالافتاء سائلین کی پرائیوسی کے احتیاط کے پیشِ نظر سائلین کے ناموں کو اخفا کر کے فتاویٰ ویب سائٹ پر جاری کرتے ہیں تاکہ سائلین کو کوئی ناگواری پیش نہ آئے۔ کچھ دارالافتاء اپنے دارالافتاء کی ویب سائٹ پر سادہ اردو فونٹ میں جوابات مہیا کرتے ہیں جبکہ بعض دارالافتاء جاری کردہ فتویٰ کی اسکین کاپی مہیا کرتے ہیں۔ نیز عمومی طور پر دارالافتاء فرضی اور شخصیات سے متعلق سوال کا جواب عموماً نہیں دیتے۔ جدید مسائل کے لیے مستند و معتبر دارالافتاؤں میں باقاعدہ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ جدید موضوع کے مستند سائنسی ماہرین سے اس موضوع کی ماہیت و حقیقت سمجھی جائے، مختلف ذرائع سے اس کی تصدیق کی جائے اور خوب تحقیق کرنے کے بعد ہی فتویٰ جاری کیا جاتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے حامل مستقبل کے دارالافتائ
عالمی سطح پر یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے آٹومیشن یعنی خودکار طریقے سے فتویٰ جاری کرنے کو رواج دیا جائے۔ مصنوعی ذہانت کو فتویٰ نویسی میں استعمال کرنے کے حامی حضرات فتویٰ نویسی میں اس کے استعمال کے کئی فوائد گنواتے ہیں مثلاً مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کے حامل مستقبل کے دارالافتاء اپنے کام کرنے میں خودکار ہوں گے۔ یعنی جب کوئی سائل اپنا سوال دارالافتاء میں جمع کروائے گا تو مصنوعی ذہانت کے الگوریتھمز اس سوال کا جواب مع حوالہ جات فوراً مہیا کر دیں گے۔

اس طریقہ کار سے کئی اور بھی نتائج حاصل کیے جا سکیں گے، مثلاً اول یہ کہ مصنوعی ذہانت کے الگوریتھم کی اپنی تربیت کی بنیاد پر ایک خاص رجحان فتویٰ نویسی میں اختیار کر سکیں گے۔ دوم یہ کہ دارالافتاء کی افرادی قوت پیدا کرنے اور ان کی تربیت کرنا بھی ضروری نہیں ہوگا یعنی تخصص کے لیے جو دو اور تین سالہ کورسز کا اہتمام مدارسِ دینیہ میں ہوتا ہے اس کی چنداں ضرورت باقی نہ رہے گی، حتٰی کہ دارالافتاء میں انسانوں کی ضرورت نہیں رہے گا اور صرف مشین (کمپیوٹر) ہی سارے کا انجام دے گا۔ سوم یہ کہ حکومتوں کو جن مسائل میں ایک خاص موقف کسی خاص مسئلہ سے متعلق رائج کرنا ہے، اسی موقف کی ترویج و اشاعت اور فتویٰ نویسی کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں مدد مل سکے گی۔ چہارم یہ کہ بہت سارے علمی مواد تک رسائی اور فتویٰ کا صارفین تک جلدی پہچانے کا نظم بھی قائم ہو جائے گا۔ پنجم یہ کہ مصنوعی ذہانت کا فتویٰ نویسی میں استعمال سے فتویٰ جاری کرنے کا عمل مزید بہتر اور شفاف ہوگا۔

فتویٰ نویسی کے لیے مصنوعی ذہانت کا ماڈل تیارکر نا
تاریخی طور پر فتویٰ نویسی کے لیے مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جاتا رہا ہے مگر چونکہ اب سے پندرہ بیس سال پہلے مصنوعی ذہانت میں اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی لہٰذا مصنوعی ذہانت ایک مخصوص طریقہ کار سے ہی فتویٰ نویسی میں استعمال ہوتی تھی۔ شروعات میں مصنوعی ذہانت کو بالکل بنیادی کاموں میں استعمال کیا جاتا تھا مثلاً ایک سسٹم بنایا جاتا تھا کہ اگر کوئی انگریزی کی بجائے اردو یا عربی میں سوال کرے تو مصنوعی ذہانت کے الگوریتھمز کے ذریعے اس زبان کو کمپیوٹر پہچان سکے اور پھر اس کے مطابق مواد ڈھونڈ سکے۔ اسی طریقے سے اگر کوئی اسکین شدہ سوال آئے تو اس اسکین شدہ عبارت کو پڑھنے کے لیے مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جاتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ مصنوعی ذہانت میں مزید ترقی ہوئی تو باقاعدہ مصنوعی ذہانت کے براہ راست فتویٰ نویسی کے سسٹم تیار ہونے لگ گئے اور ان میں کچھ کوششیں حکومتی سطح پر مصر اور متحدہ عرب امارت کی جانب سے ہوئیں، جن کے اداروں نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے فتوے جاری کرنا شروع کیے (حوالہ: اسلامک انکوائری 2022)

ان میں پہلا ادارہ دبئی کا ”دائرة الشؤون الاسلامیة والعمل الخیریہ” ہے جبکہ دوسرا مصر کا ”مرکز الازہر العالمی للفتویٰ الالیکترونیة” ہے۔ عمومی طور پر مصنوعی ذہانت کو فتویٰ نویسی میں استعمال کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا جاتا رہا ہے وہ یہ تھا کہ اب تک کے جاری کردہ فتاویٰ کا ایک مجموعہ کمپیوٹر پر محفوظ کرلیا اور پھر جب کوئی سائل سوال دریافت کرتا تو اس سوال میں موجود کلیدی الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے ان پہلے سے دیے گئے فتاویٰ جات میں سے تلاش کرکے فتویٰ سائل کو مہیا کر دیا جاتا، مثلاً طلاق سے متعلق جتنے سوالات آج تک کیے گئے اور ان پر جتنے فتویٰ جاری ہوئے، سب کمپیوٹر میں محفوظ کرلیے جاتے اور جب کوئی مستفتی سوال پوچھتا تو اس کو ان ذخیرہ شدہ فتاویٰ میں سے فتویٰ ڈھونڈ کردے دیا جاتا۔ اس طرح کے فتویٰ نویسی کے کمپیوٹر نظام کو ریٹریول بیسڈ یعنی ذخیرہ شدہ مواد سے مخصوص معلومات کو بازیافت کرنے کا ایک نظام کہا جاتا ہے۔ (جاری ہے)