کھیت میں کام کرنے والے کسان یا بھینس پالنے والے، یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر کب تک پاکستان میں خشک دودھ، بچوں کیلئے دودھ اور دودھ سے بنی غذائیں، مکھن، ملک کرین، ٹافیاں، خشک میوہ جات، قیمتی مصالحہ جات کی درآمدات میں اضافہ ہوتا رہے گا؟ آخر کب تک زرعی ملک ہونے کے باوجود خوراک کے دروازے باہر کے بیوپاریوں پر کھلتے چلے جائیں گے؟ اور مارکیٹ کی الماریوں میں باہر سے درآمد شدہ خوراک کے ڈبے زیادہ سے زیادہ سجتے رہیں گے۔ پاکستان کی دودھ کی پیداوار کا پانچواں بڑا ملک پھر بھی کم دودھ دینے والے ملکوں سے دودھ اور اس سے بنی غذائی درآمدات کی بھرمار کیوں؟ 80برس گزر گئے کسی نے سوچا ہوگا یا شاید نہیں؟ ان دو ماہ جولائی اگست کے دوران 64کروڑ ڈالرز کا زرمبادلہ پام آئل کی درآمد پر بہا دیا گیا۔
یہ صورتحال صرف کسان اور دودھ دینے والے جانوروں کے مالکان کی نہیں، بلکہ پوری معیشت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ایک طرف مقامی کسان کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا، تو دوسری طرف درآمدی اشیا کی یلغار ملکی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ رہی ہے۔ کسان سوچتا ہے کہ اگر حکومت دیہی معیشت کو سہارا دے، مقامی صنعت اور زرعی پیداوار کے فروغ کے لیے سبسڈی اور سہولتیں فراہم کرے، تو نہ صرف ملکی ضرورت پوری ہو سکتی ہے بلکہ برآمدات میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن پالیسی ساز شاید وقتی حل پر اکتفا کرتے ہیں اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زرعی پیداوار میں خودکفیل ہونے کے باوجود درآمدی خوراک پر انحصار کرتے ہیں۔ دوسری طرف شہر کے کارخانوں میں مزدور دیکھ رہا ہے کہ مشین کی آواز دھیمی ہوگئی ہے، مالکان کہتے ہیں، درآمدات بڑھ رہی ہیں ہمارے مال کی طلب کم ہوگئی ہے، کیونکہ ہر ایک بیرونی مال کا مصنوعات کا شیدائی ہے۔
بات تو سچ ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق جولائی تا اگست ٹرانسپورٹ گروپ کی درآمدات 62کروڑ 58لاکھ ڈالرز تک جا پہنچی اور مشینری گروپ کی درآمدات پر ایک ارب 70کروڑ ڈالر خرچ ہوگئے۔ یہ کاریں، یہ بسیں، یہ موٹرسائیکلیں یہ چھوٹی بڑی ہلکی پھلکی مشینریاں، یہ بیٹریاں، یہ الیکٹرک سائیکلیں، یہ سب کچھ یا بہت کچھ پاکستان کی فیکٹریوں میں بن سکتی تھیں اور کچھ بہتر ہی ہیں لیکن ان کے مال کی طلب کم ہے کیونکہ مالکان کہہ رہے ہیں کہ درآمدات بڑھ رہی ہیں۔صنعتکاروں کا شکوہ بے جا نہیں، مگر سوال یہ ہے کہ پالیسی میں وہ خلا کون پر کرے گا جو ملکی پیداوار کو تحفظ نہیں دے رہا؟ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف زرمبادلہ کا خسارہ بڑھتا جائے گا بلکہ لاکھوں افراد روزگار سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اصل ترقی وہی ہے جس میں کسان کی محنت اور مزدور کی مشین دونوں چلتی رہیں اور درآمدی اشیا پر انحصار کم سے کم ہو۔اس طرح سے درآمدات کا بڑھنا یہ ظلم ہے کسانوں پر، مزدوروں پر، کاریگروں پر، اپنی سڑکوں پر دوڑنے والے پہیے باہر سے منگوائیں گے تو کارخانوں کا پہیہ کیسے چلے گا؟
رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات پر دو ارب 53کروڑ ڈالرز کا بوجھ پڑا ہے۔ ہزاروں ایسے افسران یا سابق بھی ہوسکتے ہیں جن کو بجلی مفت پیٹرول مفت دی جاتی ہے تو بوجھ تو پڑنا ہی ہے، حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کی بات کرتی ہے لیکن غیرضروری مراعات کو کم نہیں کرتی۔ شہروں، گاؤں، قصبوں میں دوڑنے والی کاریں، بسیں، موٹرسائیکلیں سب باہر کی فیکٹریوں سے آئی ہیں، تو پھر ملکی کارخانے بند ہی ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ صرف دو ماہ میں اسمارٹ فونز کی درآمد پر 30کروڑ ڈالرز خرچ ہوگئے۔ جو گزشتہ سال سے دگنا ہے، گاؤں میں بچوں کے لیے کتابیں نہیں ہیں، شہروں میں امیر والدین اپنے بچوں کو چپ کرانے کے لیے اس کے ہاتھ میں ٹچ موبائل تھما دیتے ہیں۔ ایک طرف غریب بچے کتاب کا خواب دیکھ رہے ہیں دوسری طرف امیر بچے مصنوعی اسکرین کی روشنی دیکھ رہے ہیں۔ یہ تضاد ایک دن معاشرے کو توڑ دے گا۔ جب گاؤں کا بچہ تعلیم چھوڑ دے گا۔ اسکول کو بھول جائے گا اور شہر کا بچہ کتاب بھول جائے گا۔ شاید موبائل اسکرین پر خبر چل رہی ہوگی۔اس وقت اصل بات یہ ہے کہ اگر درآمدات پر کنٹرول نہ کیا گیا اور سیلاب کے آنے کے بعد دیہات کی زمین پر سرمایہ نہ لگایا گیا تو ملکی دولت موبائل اسکرین پر دکھائی دے گی۔ دیہات کی زمینیں بنجر رہیں گی۔ کھیت پیداوار نہیں دیں گے تو کارخانے بھی خاموش ہو جائیں گے اور معاشرے کی اگلی نسل ذہنی طور پر کتاب سے دور اور موبائل کی اسیر بن جائے گی۔
وفاقی بیورو شماریات کی رپورٹ جو اسلام اخبار میں چھپی ہے اس کے مطابق تجارتی خسارہ 6ارب ڈالر سے متجاوز کر گیا ہے۔ اگر ہم ماہانہ ماہانہ 3ارب ڈالر کا حساب لگائیں تو یہ سالانہ 36ارب ڈالر بنتے ہیں۔ سیلاب کے باعث یہ خسارہ 42تا 44ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ جو ایک بار پھر پاکستان کو ڈیفالٹ اور دیوالیہ پن کے شورشرابے میں پہنچا دے گا۔ ایک ایسی عالمی سیاسی دفاعی معاشی صورت حال میں جہاں پاکستان اور برادر عزیز ملک سعود عرب کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا ہے، اغیار کی بھرپور کوشش ہوگی کہ پاکستان سے متعلق جو قدرے بہتر تصویر دنیا کے سامنے آئی ہے، اسے معاشی کینوس میں لے جاکر مسخ کردیا جائے کیونکہ معیشت مضبوط ہوگی تو دفاعی اخراجات میں اضافہ کرکے دفاع کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔
بیرونی صلاح کاروں اور مشیروں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ ہمیں درآمدی غذائی اشیائ، مشینریاں، موبائل فون اور دیگر آئٹمز، بڑی لگژری گاڑیاں سامانتعیش، بیش قیمت فرنیچرز، سینیٹری کا سامان اور دیگر بہت سی ضروری اور غیرضروری درآمد کے پیچھے لگا دیا ہے تاکہ ہمارا تجارتی خسارہ بڑھے اور روپیہ دباؤ کا شکار ہو، ہر شے مہنگی ہوکر رہے، ترقیاتی کاموں، دفاعی اخراجات اور دیگر ضروری امور کے لیے اخراجات کم پڑ جائیں۔ ملکی شرح ترقی کی رفتار مدھم پڑ جائے تو اس کے مضر اثرات ہمارے بیرونی معاہدوں پر مرتب ہوسکتے ہیں لہٰذا حکومت جلد از جلد تجارتی خسارہ کنٹرول کرنے پر توجہ دے۔ تمام سیلاب متاثرین کی فوری آبادکاری، زمینوں کی آبادکاری، مال مویشیوں کی افزائش اور دیگر امور کے لیے متاثرین کے دروازے پر جا کر ان کی امداد کریں تاکہ ملک جد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے۔ معیشت مضبوط ہوگی تو ہم دفاعی معاہدوں کو آگے بڑھا سکیں گے۔