پاکستان ایک بار پھر قدرتی آفات کے سخت امتحان سے گزر رہا ہے۔ حالیہ سیلاب نے جہاں ہزاروں خاندان بے گھر کر دیے ہیں، وہیں معیشت کے بنیادی ڈھانچے، خاص طور پر زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سیلاب پنجاب کی زرعی زمینوں کو روندتا ہوا سینکڑوں انسانی جانوں اور ہزاروں مویشیوں کی زندگی کا خراج لینے کے بعد اب سندھ میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ قدرتی آفات کے اثرات محض وقتی نہیں ہوتے۔ یہ دہائیوں تک معاشی اور سماجی ڈھانچوں پر بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ اس تناظر میں سیاستدانوں اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی خدمت اور بحالی کے اقدامات کو اولین ترجیح دیں۔اس سوچ کا عملی اظہار چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیلاب متاثرین کے قرضے معاف کیے جائیں، انہیں بلا سود قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، ان کے بچوں کی فیس معاف کی جائے اور متاثرین کو یوٹیلٹی بلوں میں رعایت دی جائے۔ یہ تجاویز محض وقتی ریلیف نہیں بلکہ پالیسی نوعیت کی ہیں جو متاثرہ آبادی کو معاشی بحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہیں۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں 2017کے سیلاب نے زرعی شعبے کو تباہ کر دیا تھا لیکن بروقت قرض معافی اور حکومتی سبسڈی کے باعث وہاں کا کسان دوبارہ کھڑا ہو گیا تھا۔ پاکستان کو بھی ایسی ہی جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ بیرسٹر گوہر نے بحالی سیلاب زدگان کے لیے اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا ہے۔
یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ بیرسٹر گوہر کا رویہ اپنی جماعت کے بانی کے سیاسی رویے سے بالکل مختلف ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے 2022کے سیلاب کے دوران لائیو ٹیلی تھونز کے ذریعے کروڑوں روپے جمع کیے تھے لیکن ان وسائل کو متاثرین کی بحالی کی بجائے حکومت کے خلاف سیلاب کے عروج کے دنوں میں سیاسی جلسوں پر صرف کیا گیا۔ ان سے درخواست بھی کی گئی کہ ملک بحران اور عوام مصیبت میں ہیں آپ جلسے موخر کر دیں لیکن وہ نہیں مانے تھے۔ مزید یہ کہ اپنے دورِ حکومت میں ان کے بیانات اکثر سیلاب کو زرعی زرخیزی کا ذریعہ قرار دیتے رہے، حالانکہ متاثرہ عوام کے لیے یہ آفات ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بنیں۔ اس کے برعکس بیرسٹر گوہر انسانی خدمت اور فلاحی اقدامات پر زور دے رہے ہیں۔ یہ فرق نہ صرف ان کے سیاسی شعور کو ظاہر کرتا ہے بلکہ پاکستانی سیاست میں ایک نئے بیانیے کا بھی عکاس ہے۔
ایک اور پہلو جو توجہ طلب ہے وہ بیرسٹر گوہر کا مشنِ نور سے علیحدگی کا فیصلہ ہے۔ یہ اقدام ان کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کو اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملک اس وقت جارحانہ سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ داخلی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ پاکستان کو خارجہ سطح پر بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں ہر سیاسی رہنما کا یہ فرض ہے کہ وہ تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے قومی یکجہتی اور پالیسی تسلسل کو تقویت دے۔ اس ضمن میں ایک اور تجویز بھی اہم ہے۔ اگر حلیم عادل شیخ، عارف علوی اور دیگر چند رہنماؤں نے جس طرح مشکوک و متنازع مشنِ نور کے معاملے پر حقیقت پسندانہ موقف اپنایا ہے، اسی طرح پاک سعودی دفاعی معاہدے پر بھی سیاسی اختلافات سے بالا تر ہو کر حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے مبارک باد دے دیں تو یہ عمل نہ صرف قومی مفاد کو تقویت دے گا بلکہ اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سیاسی بلوغت اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کا مثبت پیغام بھی جائے گا۔ دفاعی معاہدے اور خارجہ پالیسی کے معاملات جماعتی سیاست سے بالاتر ہوتے ہیں اور ان پر قومی اتفاقِ رائے ناگزیر ہے۔شدید ترین سیلاب سے متاثر پاکستان کے موجودہ حالات میں سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور سول سوسائٹی مل کر ایک ایسی مشترکہ حکمتِ عملی مرتب کریں جس کے تحت متاثرین کی فوری امداد، زرعی بحالی، صحت و تعلیم کی سہولیات اور بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو ممکن ہو۔ یہ اقدامات وقتی ریلیف سے بڑھ کر ایک طویل المدت قومی پالیسی کا حصہ ہونے چاہئیں۔
جہاں تک بیرسٹر گوہر کے حالیہ بیانات اور تجاویز کا تعلق ہے تو یہ پاکستانی سیاست میں ایک مثبت رخ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ وہ طرزِ سیاست ہے جو جارحیت اور انتقام کی بجائے تحقیق، فلاح اور پالیسی سازی پر مبنی ہے۔ اگر تمام سیاسی قوتیں اسی سوچ کو اپنائیں تو نہ صرف سیلاب متاثرین کو سہارا ملے گا بلکہ پاکستان عالمی برادری کے سامنے ایک ذمہ دار، مستحکم اور حقیقت پسند ملک کے طور پر بھی ابھرے گا۔