تجدید وتجدُّد

(حصہ چہارم)
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے، جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اُس پر اُخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے، جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مَشِیْئَت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ”سبب” سے مراد وہ شئے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اُس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے، اُسے ”مُسَبَّب” کہتے ہیں، اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں، لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَمِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزہ سے مراد مدعیِ نبوت کے ہاتھ پر یا اُس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آجائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے، ناقابلِ تغیُّر ہے، لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اُسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

چنانچہ سرسید احمد خاں اور اُن کے اِتباع میں منکرینِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی طورپر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مُحال ہے۔ اگر معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیاجائے، تو یہی کہا جائے گا کہ اُنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دیناکہ اللہ اِس پر قادر ہے، یہ جاہلوں اور ”مرفوع القلم” لوگوں کا کام ہے، یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں، کوئی عقلمند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابلِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اُنہوں نے راوی کے سَہوو خطا، دوراَزکار تاویلات، فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا، (تفسیرالقرآن، جلد 2، ص: 122-123)”، یہ سرسید احمدخاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔

الغرض سرسید معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں، ہمیں وحیِ ربانی کے مقابل عقلی اُپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے، کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا ہے۔ سرسید احمد خاں کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کُل نہیں ہے، بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانینِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب مؤثر ہیں، لیکن اُن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے، لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے، وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے، معطَّل کردے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے، مثلاً: عالَمِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّتِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مردوزَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے، چنانچہ اُس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بِن باپ کے، حضرت حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور حضرت آدم علیہ السلام کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اُس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔

لیکن سرسید احمد خاں، غلام احمد پرویز اور آنجہانی مرزا غلام قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے، اللہ نے انھیں مٹی سے پیدا فرمایا، پھر اُس سے فرمایا: ہوجا، سو وہ ہوگیا، (آل عمران: 59)”۔ الغرض یہود کی طرح انھیں عفت مآب حضرت مریم پر تہمت لگانا تو منظور ہے، لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دینِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے، (البقرة: 256)”، مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو، اُسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا، اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجبِ سزا ہے، جبکہ موجودہ متجدد جناب جاوید احمد غامدی کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے، لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے، مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدُّدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحیِ ربانی کو حتمی، قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں، جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اُپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجۂ فکر کے مقابل انھیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عارمحسوس نہیں ہوتا۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے، جبکہ تجدُّد کے حامی کہتے ہیں: ”میرا جسم، میری مرضی”۔ جنابِ جاوید احمد غامدی حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں، جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے، اُن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا، ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اُن کی عقلی اُپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیثِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسماء ُ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں، جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اُن کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غوروفکر کریں، (النحل: 44)”۔ الغرض قرآنِ کریم کی تبیِیْن کی ضرورت تھی اور اُس کے مُبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی، اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”اور وہ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں” اور اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اُمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی، جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے، وہ عبداللہ بن مسعود کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ”میں نے دوجلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے، مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں”، عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: ”اگر تو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں، کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ”اور جو کچھ تمہیں رسول دیں، اُسے لے لو اور جس سے وہ روکیں، اُس سے رک جائو، (الحشر: 7)”، اُمِّ یعقوب نے کہا: ”کیوں نہیں، میں نے یہ آیت پڑھی ہے”، تو عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے، اُس نے کہا: ”میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں”، عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: ”جائو دیکھو”، وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں، عبداللہ بن مسعود نے کہا: ”اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں، تو میں اُن سے تعلق نہ رکھتا، (بخاری: 4886)”۔ (جاری ہے)