پاکستان میں فری لانسنگ کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ لاکھوں نوجوان دن رات محنت کرکے دنیا بھر کے کلائنٹس کے ساتھ کام کر رہے ہیںمگر افسوس کہ 2025ء میں بھی وہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جنہیں دیگر ممالک کے لوگ دہائیوں سے استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا ڈیجیٹل انقلاب میں آگے بڑھ چکی ہے مگر پاکستان کا باصلاحیت نوجوان اب بھی بین الاقوامی آن لائن نظام کے دروازے پر کھڑا ہے اور دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ آج بھی بڑی عالمی کمپنیاں جیسے Stripe، PayPal، Square، Etsy Payments، Apple Merchant Services، Amazon Seller Central (Full Access) اور کئی دیگر کمپنیاں پاکستان میں اپنی سروسز فراہم نہیں کرتیں۔ ان کمپنیوں کے پلیٹ فارمز پر دنیا بھر کے نوجوان نہ صرف فری لانسنگ کے ذریعے ڈالرز کماتے ہیں بلکہ باقاعدہ بزنس قائم کر کے معاشی آزادی حاصل کر چکے ہیں لیکن پاکستانی نوجوان، چاہے وہ عالمی معیار کا ویب ڈویلپر ہو، گرافک ڈیزائنر یا ڈیجیٹل مارکیٹر ان سہولتوں سے محروم رہ کر اپنی صلاحیت کا پورا فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔
PayPal کی مثال لیجیے، یہ وہ پلیٹ فارم ہے جس سے دنیا بھر کے فری لانسرز بآسانی ادائیگیاں وصول کرتے ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک میں یہ سہولت برسوں سے موجود ہے، مگر پاکستان کے نوجوان کو آج بھی ”کلائنٹ سے ادائیگی کیسے لینی ہے” کے مسئلے میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح Stripe جو عالمی سطح پر آن لائن بزنس کے لیے سب سے آسان پیمنٹ گیٹ وے سمجھا جاتا ہے، وہ بھی پاکستان میں دستیاب نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان کسی دوست یا رشتہ دار کے غیرملکی اکاؤنٹ کے ذریعے کام چلانے پر مجبور ہے، جو نہ صرف غیرمحفوظ ہے بلکہ قانونی خطرات بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح Amazon Seller Program بھی پاکستان کے فری لانسرز کے لیے محدود نوعیت کا ہے۔ اگرچہ حالیہ سالوں میں کچھ رسائی دی گئی ہے مگر مکمل سہولت اب بھی دستیاب نہیں۔ دوسری جانب بھارت اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں نوجوان Amazon کے ذریعے اپنی مصنوعات عالمی سطح پر فروخت کر رہے ہیں۔ یہ فرق محض معاشی نہیں بلکہ ایک ذہنی غلامی کی علامت بن چکا ہے کہ ہم تخلیق کر سکتے ہیں، کام کر سکتے ہیں، لیکن کمائی کے دروازے ہمارے لیے بند ہیں۔ پاکستان کے نوجوان اب بھی عالمی مارکیٹ میں Potential Talent کے نام پر پہچانے جاتے ہیں مگر ان کے لیے بنائے گئے رکاوٹی نظام انہیں ترقی کے موقعے سے محروم کردیتے ہیں۔ ایک طرف حکومت ”ڈیجیٹل پاکستان” کے نعروں میں مصروف ہے دوسری طرف فری لانسرز کو نہ مناسب بینکنگ سہولت ملتی ہے، نہ PayPal جیسا آسان پلیٹ فارم، نہ ہی عالمی معیار کے اشتہاری یا مارکیٹنگ ٹولز۔ ایک عام فری لانسر کے دل کی کیفیت بیان کرنا مشکل ہے جب وہ کسی بڑی ویب سائٹ یا کمپنی کے رجسٹریشن فارم کو پُر کرتا ہے اور آخر میں ملک کے انتخاب کے خانے میں Pakistan کا نام ہی موجود نہیں ہوتا۔ وہ لمحہ واقعی شرمندگی اور غصے سے بھرپور ہوتا ہے، جیسے آپ کسی عالمی دروازے پر دستک دے رہے ہوں مگر وہاں لکھا ہو ‘Access Denied ‘۔
اب جب پاکستان کی ساکھ دنیا میں بہتر ہورہی ہے اور پاکستان کے وزیراعظم و آرمی چیف عزت و احترام کے ساتھ دنیا کے دورے کررہے ہیں تو دیگر معاملات کے ساتھ ان کے پیش نظر نوجوانوں کے یہ مسائل بھی ہونے چاہئیں۔ حکومت بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرے، ریگولیٹری رکاوٹیں ختم کرے اور ان کے لیے ایک محفوظ مالیاتی فریم ورک تشکیل دے۔ اگر PayPal، Stripe، Amazon، اور Apple جیسی کمپنیاں یہاں آئیں تو نہ صرف لاکھوں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے بلکہ پاکستان کا نام ڈیجیٹل معیشت میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر شکایت کرنے کے بجائے حکومتی سطح پر مطالبہ کریں کہ پاکستانی فری لانسرز کو وہی عالمی سہولیات دی جائیں جو بنگلہ دیش، بھارت اور فلپائن کے نوجوان کئی سالوں سے حاصل کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ صرف سہولت کا معاملہ نہیں بلکہ ایک قومی وقار، معاشی آزادی اور ڈیجیٹل خودمختاری کا سوال ہے۔

