پاک فوج غزہ کیوں جائے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عوام کو مکمل اطمینان دلایا ہے کہ ”اب ہم جو غزہ میں جو کرنے جا رہے ہیں، اس میں امریکی افواج خطرے میں نہیں ہوگی۔ ہمارے لیے یہ کام دوسرے لوگ سرانجام دیں گے۔”

امریکی سرپرستی میں غزہ میں اسلامی ملکوں کی فوج تعینات کر کے حماس سے اسلحہ لینے کے خطرناک ترین منصوبے کا آج کل میں اعلان ہونے والا ہے۔ کہاجارہا ہے کہ پاکستانی فوج بھی اس اہم ترین مہم کا حصہ ہوگی۔ گویا جو کام اسرائیل نہیں کر سکا، اب وہ کام اسلامی ملکوں کی افواج سے لیا جائے گا۔ ہمارے بعض دانشور حضرات کا اصرار ہے کہ پاکستان کو حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے تشکیل دی جانے والی بین الاقوامی فوج کا حصہ بننا چاہیے۔ جنگ میں جناب افضال ریحان نے لکھا ہے کہ پاکستان کو لازمی طور پر اس مہم میں شریک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے مثال پیش کی ہے کہ اردن میں شاہ اردن کے خلاف فلسطینی مہاجرین کی بغاوت کچلنے کے لیے پاکستان نے اس وقت کے بریگیڈئیر ضیاء الحق کی قیادت میں فوج بھیجی تھی ، لہٰذا ابھی بھی غزہ کے فلسطینی ”شدت پسندوں” کے خلاف پاکستان کو فوج بھیجنی چاہیے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ افضال ریحان نے اردن کے جس شاہ کو زیرک اور سمجھدار قرار دے کر پاکستان کو بھی شاہ اردن اور انور السادات کے نقش قدم پر چلنے کا مشورہ دیا ہے،اسی شاہ اردن نے واضح لفظوں میں غزہ میں اپنی فوج بھیجنے سے منع کردیا ہے اور یہی بات کی ہے کہ فوج کا مشن اگر حماس کو غیر مسلح کرکے امن قائم کرنا ہے تو ہم اس کا حصہ نہیں بن سکتے۔

گویا کہ اردن اور مصر جیسے ممالک کو اس یکطرفہ منصوبے کے نتائج و عواقب کا اندازہ ہے جبکہ ہمارے دانشور حکومت کو آنکھیں بند کرکے برادر کشی کی اس مہم میں کود پڑنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ یہ بھیانک منصوبہ دنیا بھر کے احیائے اسلام کی تنظیموں، مذہبی سیاسی جماعتوں اور دینداروں کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیا طریقہ کار اختیار کریں کہ یہ خطرناک منصوبہ تبدیل ہو جائے؟ اس پر اجتماعی غور و فکر اور متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی فوری ضرورت ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حکومت کے باقاعدہ اعلان سے پہلے پہلے بھر پور اور منظم انداز میں تحریک چلائی جانی چاہئے۔ تمام مذہبی قیادت ایک ہی نکتہ پر مرتکز ہو جائے کہ حماس کو نہتا کرنے کے امریکی و اسرائیلی منصوبے میں پاکستانی فوج استعمال نہیں ہونی چاہئے۔ اس پر اگر زور دارطریقے سے کام ہو تو شاید پاکستان اس اتحاد سے نکل جائے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب اس میں اہم ترین کردار کو ادا کر سکتے ہیں۔ ان کے حکومتی اور اپوزیشن ارکان دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات اور مراسم ہیں۔ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود حضرات سے ملاقاتیں کر کے انہیں قائل کریں کہ وہ دونوں ایوانوں میں ایک متفقہ قرار داد لائیں کہ حماس کو نہتا کرنے کے بھیانک منصوبے میں پاک فوج استعمال نہیں ہونی چاہئے۔

پاکستان کو اس وقت ISFکا حصہ بالکل نہیں بننا چاہئے۔ ISFنہ تو UNOکی اجازت سے قائم کی جا رہی ہے اور نہ ہی سے اسے UNOکی حمایت حاصل ہے۔ یہ ایک خالصتاً امریکی و اسرائیلی منصوبہ ہے۔ ISFکی بالکل وہ حیثیت نہیں ہے جو UNOکی امن افواج کی ہوتی ہے۔ شرم الشیخ معاہدے میں کلیدی کردار تو قطر، مصر اور ترکیہ کا تھا۔ انہیں ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کیا جاتا تو حماس کو ہتھیا رکھنے پر آمادہ کرنا قدرے ممکن تھا، لیکن ان ممالک پر اسرائیل کو اعتراض ہے کہ وہ غیرجانبدار نہیں ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جن ممالک کی خدمات حاصل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، کیا وہ غیر جانبدار ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مصر، قطر اور ترکیہ پر تو اسرائیل کو اعتراض ہے، مگر پاکستان پر نہیں؟؟ ذرا تصور کیجئے! جب حماس کو غیر مسلح کرنے کا موقع آئے گا اور حماس پہلے ہی یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ غیر مسلح نہیں ہو گی تو کیا اس طرح پاک فوج فلسطین کے مسلمان مزاحمت کاروں کے دو بدو نہیں آجائے گی؟ مسلمان مسلمان کو مار رہا ہوگا۔ پاکستان کو پہلے ہی کئی محاذوں پر سنگین ترین صورت ِحال اور سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ ایسے میں ایک نئے محاذ پر افواجِ پاکستان کی تشکیل کرنا کہاں کی دانشمندی ہو سکتی ہے؟؟ اس پر قومی اسمبلی میں کھلی بحث اور سنجیدہ ڈیبیٹ کی اشد ضروت ہے۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال اور ملک میں موجود مذہبی جماعتیں کبھی بھی اس سے اتفاق نہیں کریں گی کہ پاکستانی فوج غزہ میں تعینات کی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے نتیجے میں ایک بڑا خطرہ یہ موجود ہے کہ پاکستان دشمن خوارج کا بیانیہ مضبوط ہو جائے گا۔ اور ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ یوں خوارج کو مستقل نیا عنوان مل جائے گا۔ جس کی بنیاد پر وہ پاکستانی فوج، مذہبی قائدین اور پاک فوج کے حامی عوام پر حملے مزید تیز کر دیں گے۔ پاکستان کا اب تک کا مؤقف اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا رہا ہے۔ اس بیانیے کو مضبوط انداز میں دہرانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان مخالف خوارج وقفے وقفے سے اس بات کو اٹھا رہے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے تعلقات بہتر کر رہا ہے۔ ایسی کوئی بھی خبر خوارج کا بیانیہ مضبوط کرے گی اور پاکستان میں دہشت گردی کی لہر مزید بڑھ جائے گی۔