بات تو ہمارے محترم سیاستدان مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے کرنا ہے، مگر پہلے چند سطریں کرکٹ کے حوالے سی پڑھ لیں کہ ان کا براہ راست تعلق بنتا ہے۔ کرکٹ میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، آؤٹ آف فارم ہونا۔ ایسے میں کسی بڑے بلے باز کے لیے بھی اچھے شاٹس کھیلنا ممکن نہیں رہتا۔ گیند بلے پر ٹھیک سے مڈل نہیں ہوتا، ٹائمنگ خراب ہوتی ہے، اچھی بھلی گیند بھی مس ہو جاتی ہے۔ ایسی خراب فارم میں بڑے بلے باز بھی متواتر ناکام ہوتے ہیں۔ ا س کا ایک ہی طریقہ ہے کہ نیٹ پریکٹس میں اپنی خامیوں پر کام کیا جائے۔ اپنی تکنیک بہتر کی جائے، اچھی تکنیکی مشاورت لی جائے۔ اپنی غلطیوں کوٹھیک کرنے کی کوشش ہو اور پھر فارم واپس آ بھی جاتی ہے۔ پھر سے رنز بننے شروع ہوجاتے ہیں، عمدہ کارکردگی نظر آتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے عقیدت مند، کارکن اور حامی اگر برا نہ مانیں تو یہ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ مولانا کی فارم بھی آج کل خاصی خراب اور ناقص چل رہی ہے۔ وہ ٹھیک سے سیاسی شاٹس بھی نہیں کھیل پا رہے۔ انہیں کئی بنیادی چیزوں کی سمجھ نہیں آ رہی یا بری ٹائمنگ اور کسی تکنیکی خامی کی وجہ سے وہ ٹھیک سے ڈیلیور نہیں کر پا رہے۔ مولانا کمزور بیانات دے رہے ہیں، غیر منطقی، غیر ضروری۔ کچھ دن پہلے ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں مولانا افغانستان کی غیر ضروری حمایت فرما رہے تھے۔ اس میں انہوں نے پاکستان کو طعنہ دیا کہ پاکستان نے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ دی، ایئربیس دیے جہاں سے جہاز اڑکر افغان طالبان پر بمباری کرتے تھے۔ یہاں سے یہ ہوتا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مولانا فضل الرحمن افغان طالبان حکومت کے کسی اہلکار کی زبان بول رہے ہوں۔ انہیں ذبیح اللہ مجاہد یا ان کی ٹیم میں سے کسی نے ایک پریس ریلیز بھیجی ہے جسے انہوں نے من وعن بول ڈالا۔ مولانا کے بعض حامیوں نے وضاحت کی کہ یہ ویڈیو پرانی ہے۔ کس قدر پرانی ہوگی؟ ظاہر ہے پاکستان افغانستان طالبان تنازع کے دوران ہی یہ بیان دیا گیا۔ اس بیان میں بڑے خوفناک تضادات تھے، جن کا مولانا فضل الرحمن کو بھی بخوبی علم تھا۔ اس کے باوجود صرف مخصوص سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے افغان طالبان حکومت کی حمایت کر دی گئی۔
یہ درست ہے کہ پاکستان نے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ دی، ائیر بیس بھی دیے، مگر اس کی بڑی وجہ نائن الیون کے بعد کے معروضی حالات تھے۔ امریکا نے اقوام متحدہ سے اپنے حق میں قرارداد منظور کرا لی تھی اور افغان طالبان حکومت کے بلنڈرز اتنے بڑے تھے کہ چین تک اسے ویٹو نہ کر پایا۔ امریکا کو دنیا بھر کی سپورٹ حاصل ہوگئی تھی اور پاکستان کے لیے اس کی مزاحمت کرنا عملی طور پر ناممکن ہوچکا تھا۔ پاکستان کو مجبوراً اس لیے بھی ساتھ دینا پڑا کہ بھارت بہت تیزی سے آگے بڑھا تھا اور وہ تاجکستان وغیرہ کے راستے امریکا کو وہی مدد دینے کو تیار تھا۔ پاکستا ن نے امریکا کو ائیر بیس تو دیے، وہاں سے افغان طالبان پر کچھ حملے بھی ہوئے ہوں گے، مگر بعد میں تو امریکا کے پاس پورا افغانستان تھا اور وہاں پر اس کے پاس ایئربیسز کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اصل بات جس کا مولانا فضل الرحمن نے اعتراف نہیں کیا، پاکستانی عوام اور اپنے دینی حلقے کو نہیں بتائی، وہ یہ کہ پاکستانی حکومت اور خاص کر پاکستانی اداروں نے امریکا کو مجبوری کے عالم میں لاجسٹک سپورٹ تو دی مگر پھر اندرون خانہ افغان طالبان کو بھرپور مدد بھی دی گئی۔ پاکستان نے امریکا کے خلاف مزاحمت کے بیس برسوں میں مسلسل افغان طالبان لیڈرشپ کو سپورٹ دی، تحفظ فراہم کیا۔ قندھار شوری اور حقانی نیٹ ورک کو شدید ترین امریکی دبائو کے باوجود نہیں چھیڑا۔ باون ہزار کے لگ بھگ افغان طالبان زخمیوں کا پاکستانی ہسپتالوں میں علاج ہوا۔
افغان طالبان جنگجووں کے اہل خانہ یہاں رہتے رہے، وہ لڑائی میں وقفہ لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے اور آرام کر کے تازہ دم ہوکر واپس جاتے۔ پاکستان افغان طالبان کا بیس کیمپ تھا، یہاں سے ان کی سپلائی لائن جاری رہی اور پاکستان نے ممتاز افغان طالبان لیڈروں اور کمانڈروں کو امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ایجنٹوں سے ہر ممکن تحفظ فراہم کیا۔ پاکستان کی اس مد د کے بغیر افغان طالبان کامیاب ہونا تو درکنا ر اپنی جنگ جاری تک نہ رکھ پاتے۔
دنیا کی کوئی بھی گوریلا تحریک اپنے پڑوس میں بیس کیمپ بنائے بغیر، کسی قریبی پڑوسی ملک کی حمایت اور تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ہر گوریلا تحریک کو پیچھے بیس کیمپ بنانا پڑتا ہے۔ خاص کر جب مقابلہ سپر پاور سے ہو تب تو یہ بات بہت ہی زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمن جیسا محرم راز، جنہیں ہر بات کا پتا ہے، بہت کچھ کے وہ عینی شاہد اور واقف حال ہیں، وہ بھی اگر سچ بیان کرنے کے بجائے افغان طالبان حکومت کو خوش کرنے کے لیے ان کابیانیہ دہرائیں گے تو یہ کس قدر افسوسناک اور قابل تنقید بات ہوگی۔ یہ بات کہنا ہی غلط ہے کہ چونکہ پاکستان نے امریکا کو اڈے دیے تھے، اس لیے اب افغان طالبان پاکستان کے مخالف ہیں۔ یہ کس قدر پوچ، کمزور اور غیر حقیقی بات ہے۔
کیا افغان طالبان نہیں جانتے کہ اس پورے عرصے میں جب امریکا مسلسل چیخ پکار کر رہے تھے کہ پاکستان کوئٹہ شوری کے خلاف کارروائی کرے، حقانی نیٹ ورک کو اکھاڑ پھینکے۔ پاکستان نے ایسا نہیں کیا۔ شدید ترین امریکی دباؤ کو برداشت کیا۔ ہمارے اداروں کے لوگوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر افغان طالبان کمانڈروں اور رہنمائوں کو محفوظ رکھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو موجودہ امیر مولانا ہبت اللہ کچلاک کی ایک مسجد میں 15، 20سال آرام سے نہ بیٹھے رہتے۔ وہ گوانتے ناموبے کی خوفناک جیل میں برسوں سڑتے رہتے۔ ملا برادر کو گرفتاری کے باوجود امریکیوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ وہ پاکستان میں دس برس ایک نام نہاد قیدمیں آرام سے زندگی بسر کرتے رہے۔ امریکیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا کہ ملا برادر کو پاکستان کرزئی حکومت یا براہ راست امریکیوں کے حوالے کردے۔ کیا افغان طالبان نہیں جانتے یا مولانا فضل الرحمن واقف نہیں کہ پاکستان نے ایسا نہیں کیا؟
گزشتہ روز پھر اچانک مولانا جوش میں آگئے اور شاہد آفریدی کے انداز میں کریز سے باہر نکل کر چھکا لگانے کی کوشش کی۔ اس بار ان کا اٹیک پنجاب حکومت پر تھا۔ مریم نواز شریف کی حکومت نے ائمہ مساجد کے لیے ایک بڑا اعلان کیا ہے۔ جس کے مطابق پنجاب حکومت 65ہزار کے قریب آئمہ مساجد کو 25ہزار روپے ماہانہ دے گی۔ یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے جس سے مساجد سے وابستہ افراد میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس سے پہلے پختونخوا حکومت بھی ائمہ مساجد کو ماہانہ 10ہزار روپے دے رہی ہے۔ کالم لکھنے سے پہلے محنتی، تحقیقی صحافی عبدالجبار ناصر سے بات ہوئی تو انہوں نے اپ ڈیٹڈ اعداد وشمار بھی شیئر کیے۔ مزمل اسلم پختونخوا حکومت کے مشیر ہیں، انہوں نے ہمارے صحافی دوست کو بتایا کہ صوبائی حکومت 16ہزار 860ائمہ کو ماہانہ 10ہزار روپے دے رہی ہے۔ مولانا نے پنجاب حکومت کو طعنہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ چند سال پہلے تحریک انصاف نے 10ہزار دینے کا اعلان کیا تھا، اب 6سال بعد بھی مولوی کے لیے 10ہزار ہی ہیں۔ مولانا کو شاید علم نہیں تھا کہ پنجاب حکومت 10ہزار نہیں بلکہ 25ہزار دے رہی ہے اور لینے والوں کی تعداد بھی پختون خوا سے 4گنا زیادہ ہے، ویسے پنجاب بھی کے پی سے ڈھائی 3گنا بڑا صوبہ ہے۔
میں نے یہ کالم لکھنے سے پہلے کئی لوگوں سے بات کی جن میں بعض ائمہ مساجد بھی شامل تھے مختلف مکاتب فکر سے ان کا تعلق ہے۔ سب نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی بیشتر مساجد میں 10سے 15ہزار ماہانہ تک پیسے دییے جاتے ہیں، وہ بھی بڑی مشکل سے۔ نماز جمعہ کے بعد جمع ہونے والے چندے سے یہ تنخواہ اکٹھی ہوتی ہے۔ امام مسجد اس لیے بے چارے مجبوری سے راضی ہوجاتے ہیں کہ انہیں مسجد کے ساتھ ایک کمرہ مل جاتا ہے تو رہائش کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے اور پھر دن بھر وہ ٹیوشنیں پڑھا کر گزارا کرتے ہیں۔ 25ہزار ان تمام آئمہ مساجد کے لیے ایک معقول اور اچھی پیش کش ہے۔ سوال یہ ہے کہ ا گر حکومت مولوی کے لیے کچھ کر رہی ہے تو یہ ان کا حق ہے، سرکاری خزانے سے پیسے مل رہے ہیں۔ کسانوں کو سبسڈی ملتی ہے، مزدوروں کے لیے بہت سی اسکیمیں ہیں، کبھی کبھار صحافیوں، وکلا وغیرہ کے لیے بھی کوئی سرکاری پلاٹس کی اسکیم آ جاتی ہے۔ مولوی صاحبان بے چارے محروم تھے، حالانکہ یہ دین کی خدمت کرتے ہیں، ان کے بغیر سماج کی بہت سی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں۔ مولانا اگر یہ مطالبہ کرتے تو بجا تھا کہ 25ہزار کے بجائے کم از کم تنخواہ یعنی 40ہزار روپے دیں۔ تب ہم سب بھی ان کی حمایت کرتے۔ اگر وہ یہ کہتے کہ 65ہزار کی جگہ ایک لاکھ مولوی صاحبان کو یہ پیسے ماہانہ دیے جائیں تب بھی یہ مطالبہ کچھ وزن رکھتا ہے۔ مولانا کا یہ کہنا عجیب ہے کہ حکومت ان پیسوں سے مولویوں کا ایمان اور ضمیر خریدنا چاہتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے آپ کو پانچ لاکھ علماء کا نمائندہ کہتے ہیں، دینی مدارس اور مولوی صاحبان ان کا حلقہ (کانسٹی چیونسی) سمجھا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو ائمہ مساجد کے ایمان، ضمیر اور کردار پر اتنا بھروسہ بھی نہیں؟ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ اس حقیر رقم کے عوض یہ امام مسجد بک جائیں گے، سرنڈر کر دیں گے؟
دو ڈھائی صدی قبل جب ہندوستان میں کرنسی نوٹوں کا چلن ہوا تو بعض علماء نے اس کے خلاف فتوی دیا، ایک بڑے عالم دین تک وہ فتوی پہنچا تو انہوں نے برجستہ تبصرہ کیا، میں دستخط تو کر دوں، مگر فتوی نہیں چلے گا اور کرنسی نوٹ چل جائیں گے کیونکہ ان میں عوامی سہولت موجود ہے۔ بات یہ ہے کہ مولانا کے اعلان اور بیانات اپنی جگہ، یہ نہیں چلیں گے، ائمہ مساجد کو جو سہولت مل رہی ہے، وہ چل جائے گی۔ مولانا خود اپنی نظروں سے دیکھیں گے کہ ان کے مکتب فکر اور مسلک کے کتنے زیادہ امام مسجد درخواست دے کر یہ سرکاری سہولت حاصل کریں گے۔

