غزہ/تل ابیب/واشنگٹن/نیویارک /دوحہ/ریاض: اسرائیل کی جانب سے غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ تازہ فضائی اور زمینی حملوں میں 7 افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ کئی مکانات کو دھماکوں سے اڑا دیاگیا۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کے مختلف علاقوں میں فضائی کارروائیاں کیں جن میں 3 فلسطینی شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ جنگ بندی کے آغاز سے اب تک 236 فلسطینی شہید اور 600 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
اسرائیلی فوج غزہ امن معاہدے پر 10 اکتوبر کو دستخط ہونے کے بعد سے اب تک 194 بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکی ہیغزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق مغربی علاقے میں تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے مزید دو لاشیں برآمد ہوئیں۔
دوسری جانب ایک آبادکار کی فائرنگ سے الخلیل کے شمالی داخلی راستے پر ایک نوجوان شہید ہوا جبکہ خان یونس سمیت دیگر علاقوں میں ریسیکو آپریشن جاری ہے۔اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں اب تک 68 ہزار 858 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار 664 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج نے کارروائیاں تیز کرتے ہوئے بچوں سمیت 21 فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا۔ادھر لبنان میں بھی سیز فائر کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ صہیونی فوج نے جنوبی لبنان میں ایک کار کو ڈرون سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چار افراد شہید ہوئے۔
دریں اثناء فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ امن معاہدے پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید 3یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کردیں۔اسرائیلی فوج نے ریڈ کراس سے یرغمالیوں کی لاشیں موصول ہونے کی تصدیق کردی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق لاشوں کو شناخت کے عمل کیلئے تل ابیب کے ابوکبیر فرانزک انسٹی ٹیوٹ منتقل کردیا گیا۔حماس اس سے قبل 17 یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کرچکی ہیں اور اب تک مجموعی طور پر 20 لاشیں اسرائیلی حکام کے سپرد کی جا چکی ہیں۔اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ حماس کے پاس اب بھی 8یرغمالیوں کی لاشیں موجود ہیں۔
غزہ میں فلسطینی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ اسے پیر کے روز قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے 45 فلسطینی شہداء کی لاشیں موصول ہوئیں جنہیں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے حوالے کیا گیا۔ اس طرح قابض اسرائیل سے موصول ہونے والی شہداء کی لاشوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 270 ہوگئی ہے۔
وزارتِ صحت نے اپنے بیان میں کہا کہ اب تک ان 270 شہداء میں سے 78 کی شناخت کی جا چکی ہے جن کی لاشیں قابض اسرائیل نے واپس کی تھیں۔بیان میں مزید بتایا گیا کہ وزارتِ صحت کی طبی ٹیمیں ان شہداء کی لاشوں کے ساتھ تمام منظور شدہ طبی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق برتاؤ کر رہی ہیں تاکہ جانچ، شناخت اور مکمل دستاویزات کے بعد انہیں ان کے اہل خانہ کے سپرد کیا جا سکے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس کی جانب سے 3 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرنے پرخوشی ہوئی ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے اب تک دنیا بھر میں 8 جنگیں رکوائیں۔امریکی صدر نے کہا کہ امریکا یوکرین کو ٹوماہاک کروز میزائل دینے پر فی الحال غور نہیں کر رہا۔
علاوہ ازیںدو سال قبل فلسطینی گروپ حماس کے حملے کے بعد جنوبی اسرائیل کے کیبوتز نہال عوز کو خالی کرنے والے درجنوں شہری اب بھی خوف کا شکار ہیں اور اپنے گھروں کو واپس جانے سے ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ماہ جنگ بندی کے بعد علاقے میں کچھ سکون لوٹ آیا ہے، لیکن مقامی آبادی کے دلوں میں دوبارہ حملے کا خوف اب بھی تازہ ہے۔
ایک اسرائیلی شہری نے41 سالہ آویشائی ادری جنہوں نے اپنے چار بچوں کو اسی کیبوتز میں پالا، رائٹرز کو بتایا کہ اب واپسی چاہتے ہیں مگر تحفظ کے خدشات انہیں روک رہے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی فوج کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کا بھرپور جواب دیں گے اور حماس کے خلاف کارروائیاں بھی جاری رکھیں گے۔
کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ غزہ کے کچھ حصوں میں اب بھی حماس کے مراکز موجود ہیں جنہیں مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ رفح اور خان یونس میں حماس کے مراکز ہیں جنہیں جلد ختم کر دیا جائے گا۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اگر ہماری فوج پر حملے کی کوشش کی گئی تو ہم حملہ آوروں اور ان کی تنظیم دونوں کو نشانہ بنائیں گے۔ ہم اپنی فوج کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کارروائی کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں کی جانے والی کارروائیاں امریکا کو رپورٹ کی جاتی ہیں لیکن کسی قسم کی اجازت نہیں لی جاتی۔نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ اعلیٰ سطح پر سیکورٹی کی ذمہ داری خود لیتے ہیں اور اسے کسی صورت ترک نہیں کریں گے۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے کی پاسداری پر عمل کروانے کے لیے موثر کردار ادا نہیں کر رہا۔
ادھراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ غزہ صحافیوں کیلئے سب سے خطرناک جگہ رہی ہے۔اپنے ایک بیان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ آج کے دن ہم صحافیوں کیلئے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں، دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل کے 10 میں سے تقریبا ً9 واقعات غیر حل شدہ ہیں۔
یو این سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایک بار پھر آزاد اور غیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں، سزا نہ ملنا مزید تشدد کو بڑھاتا ہے، سزا نہ ملنا صرف ناانصافی نہیں بلکہ صحافتی آزادی پر حملہ ہے، تمام حکومتوں کو چاہیے کہ ہر کیس کی تحقیقات کریں اور مجرموں کو کٹہرے میں لائیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی ایجنسی انروا نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ غزہ جنگ بندی نافذ ہونے کے بعد وہ علاقے میں چند سکول دوبارہ کھول رہی ہے جس میں بچے آہستہ آہستہ کلاسوں میں واپس جا رہے ہیں۔
انروا کے سربراہ فلپ لازارینی نے ایکس پر کہاکہ اسکول کے 25,000 سے زیادہ بچے پہلے ہی ایجنسی کی قائم کردہ سیکھنے کی عارضی جگہوں میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ تقریباً 300,000 آن لائن کلاسز لیں گے۔
وسطی غزہ کی پٹی میں مغربی نصیرات کے الحسینہ سکول میں دستیاب کمروں کی کمی کے باوجود ابھی کلاسیں دوبارہ شروع ہی ہوئی تھیں۔گیارہ سالہ طالبہ وردہ رضوان نے کہا کہ وہ اپنے سیکھنے کے معمولات پر واپس آنے کی منتظر تھیں۔
انہوں نے بتایاکہ میں اب چھٹی جماعت میں ہوں لیکن نقلِ مکانی اور جنگ کی وجہ سے میری تعلیم کے دو سال ضائع ہو گئے۔مرحوم فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی غزہ کی رہائش گاہ بھی تباہ شدہ علاقے کی دیگر عمارات کی طرح کھنڈرات میں کھڑی ہے لیکن ایک زمانے میں شاہانہ ولا کی باقیات بھی اب کئی بے گھر خاندانوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔
فوٹیج میں ملبے میں گھرا ہوا وہ گھر دکھایا گیا جو 2004ء میں فلسطینی رہنما کی وفات کے بعد عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور ان کے اعزاز میں اس کی دیواروں پر یادگاری نقوش بنے ہوئے تھے۔غزہ شہر کے رمل محلے میں واقع اس گھر کو دو سالہ جنگ کے دوران اسرائیلی حملوں سے بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا۔
ایک یونیورسٹی پروفیسر اشرف نافع ابو سالم جنہیں اپنے اور دیگر خاندانوں کے ساتھ رہائش گاہ میں پناہ ملی، نے کہا کہ انہوں نے گھر کے صحن کے اندر موجود ملبے کو صاف کرنے کا فیصلہ کیا جو بہت حد تک تباہ شدہ اور سوختہ تھا۔ولا سے سڑک پر کھلنے والا ایک دھاتی دروازہ عرفات کے پوسٹر سے مزین ہے جس میں وہ اپنا مخصوص کوفیہ رومال اور دھوپ کے چشمے پہنے ہوئے ہیں۔
قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینیوں کی واحد نمائندہ بننا چاہیے، غزہ اور مغربی کنارے کیلئے مشترکہ حکومت ناگزیر ہے ۔قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے امریکی میڈیا کو انٹرویو میں کہا دو ریاستی حل کے سوا کوئی متبادل نہیں،فلسطینی گروہوں میں عبوری ٹیکنوکریٹک کمیٹی پرمشاورت جاری ہے۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان اور امریکی ہم منصب مارکو روبیو کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان اور امریکی ہم منصب مارکو روبیو کے درمیان رابطے میں خطے کی صورتحال، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سعودی وزیر خارجہ سے برطانوی ہم منصب نے بھی ملاقات کی، سعودی عرب اور برطانیہ کے تعلقات، مختلف شعبوں میں تعاون پر غور کیا گیا، دونوں وزرائے خارجہ نے خطے کی صورتحال اور سفارتی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔
ادھرقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی انسانی صورتحال بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ تنظیم کے مطابق ایک ملین سے زائد فلسطینی بچے پانی اور خوراک کی شدید قلت میں مبتلا ہیں اور ہزاروں بچے ہر رات بھوکے سونے پر مجبور ہیں حالانکہ جنگ بندی کا معاہدہ نافذ ہے۔
یونیسیف کی ترجمان ٹیس انگرام نے کہا کہ اگرچہ جنگ بندی ایک مثبت خبر ہے لیکن یہ بھوک کے خاتمے یا صاف پانی کی فراہمی کے لیے کافی نہیں۔ ان کے بقول غزہ میں پانی اور صحت کی بنیادی تنصیبات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور فلسطینی خاندان روزانہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور طبی سامان ناپید ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا افسر کو حراست میں لے لیا گیا۔
اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انھوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی نے فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی اور اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفا بھی دیدیا تھا۔
یہ ویڈیو اسرائیل کے سدے تیمن کے فوجی حراستی مرکز کی تھی جس میں اہلکاروں کو چند قیدیوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو میڈیا کو فراہم کی گئی تھی۔اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو گزشتہ رات مستعفی ہونے والی تومر یروشلمی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
عدالت میں پولیس کے نمائندے نے بتایا کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو پہلے سے علم تھا کہ ویڈیو لیک کرنے میں ملٹری لا افسر تومر یروشلمی ملوث ہیں لیکن انھوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی جس پر چیف پراسیکیوٹر سولوموش کے وکیل ناتی سمخونی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو اس بات کا علم اپنا بیان جمع کرانے کے کافی بعدہوا تھا۔
ادھرکلب برائے اسیران فلسطین نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی اسیران کو سزائے موت دینے کے بل کی منظوری دراصل ایک ایسے جرم کو قانون کا لبادہ پہنانے کی مجرمانہ کوشش ہے جو قابض اسرائیل برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ اقدام ان جرائم کی سرکاری توثیق ہے جو صہیونی فوج طویل عرصے سے فلسطینی قیدیوں کے خلاف انجام دیتی آ رہی ہے۔پیر کے روز جاری کردہ اپنے بیان میں کلب برائے اسیران نے کہا کہ قابض اسرائیل کی درندگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے جس کا اندازہ انسانی حقوق کی زبان بھی نہیں بیان کر سکتی۔
ادھر حماس نے کہا ہے کہ صہیونی کنیسٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے فلسطینی اسیران کو سزائے موت دینے کے بل کی منظوری اور اسے کنیسٹ میں ووٹنگ کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ قابض اسرائیل کے فاشزم اور نسل پرستانہ سوچ کی کھلی عکاسی ہے۔
حماس کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی قوانین، بالخصوص بین الاقوامی انسانی قانون اور تیسرے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔پیر کے روز اپنے بیان میں حماس نے اقوام متحدہ، عالمی برادری اور انسانی و حقوقی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مجرمانہ اور وحشیانہ اقدام کو روکنے کے لیے فوری عملی قدم اٹھائیں۔

